ھم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ھم مسافر ہيں زندگی بھر کے
کون سورج کی آنکھ سے دن بھر
زخم گنتا ہے شب کی چادر کے
صلح کر لی يہ سوچ کر ميں نے
ميرے دشمن نہ تھے برابر کے
خود سے خيمے جلا ديئے ميں نے
حوصلے ديکھنا تھے لشکر کے
يہ ستارے يہ ٹوٹتے موتی
عکس ہيں ميرے ديدہ تر کے
گر جنوں مصلحت نہ اپنائے
سارے رشتے ہيں پتھر کے
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں