اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

یہ ہے میری کہانی

7/05/2015

یہ ہے میری کہانی
خاموش زندگانی
سناٹا کہہ رہا ہے
کیوں ظلم سہہ رہا ہے
اک داستاں پرانی
تنہائی کی زبانی
ہر زخم کھل رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے
دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بس یہ میری کہانی
بے نشاں نشانی
اک درد بہہ رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بجائے پیار کے شبنم میرے گلستاں میں
برستے رہتے ہیں ہر سمت موت کے سائے
سیاہیوں سے الجھ پڑتی ہیں میری آنکھیں
کوئی نہیں کوئی بھی نہیں جو بتلائے
میں کتنی دیر اجالوں کی راہ دیکھوں گا
کوئی نہیں ہے کوئی بھی نہیں نہ پاس نہ دور
اک پیار ہے دل کی دھڑکن
اپنی چاہت کا جو اعلان کیے جاتی ہے
زندگی ہے جو جیے جاتی ہے
خون کے گھونٹ پیے جاتی ہے
خواب آنکھوں سے سیے جاتی ہے
اب نہ کوئی پاس ہے
پھر بھی احساس ہے
راہیوں میں الجھی پڑی
جینے کی اک آس ہے
یادوں کا جنگل یہ دل
کانٹوں سے جل تھل یہ دل
چھبتے کانٹوں یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں​




محسن بھوپالی ـ چاہت میں کیا دُنیا داری ، عشق میں کیسی مجبوری

چاہت میں کیا دُنیا داری ، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا؟ سمجھانے دو، اُن کی اپنی مجبوری

میں نے دِل کی بات رکھی اور تونے دُنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی اُن کا حُکم بھی مجبوری

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ، ہے مٹی کی مجبوری

ذات کدے میں پہروں باتیں اور مِلیں تو مہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آجاتی ہے ، مصنوعی مجبوری

مدت گُزری اِک وعدے پر آج بھی قائم ہیں مُحسن
ہم نے ساری عمر نبھائی ، اپنی پہلی مجبوری
اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
ساری جھوٹی باتیں ہیں
دن اپنے نہ راتیں ہیں
پل پل ایک کہانی ہے
جو جیون بھر دہرانی ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
چہرے کیا تصویریں ہیں
نہ خواب ہیں نہ تعبیریں ہیں
آس ہے جو کہ جیون ہے
الجھا الجھا بندھن ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں​

سیف الدین سیف ـ در پردہ جفائوں کو اگر جان گئے ہم

در پردہ جفائوں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ بُرا مان گئے ہم

اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دلِ ناداں
اب ھوش میں آئے تو میری جان ، گئے ہم

پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو
اے حُسنِ پشیماں ، تیرے قربان گئے ہم

ہم اور تیرے حُسنِ تغافل سے بِگڑتے
جب تُو نے کہا مان گئے؟ مان گئے ہم

بدلہ ہے مگر بھیس غم عشق کا تونے
بس اے غمِ دوراں تُجھے پہچان گئے ہم

ہے سیف بس اتنا ہی تو افسانہءِ ہستی
آئے تھے پریشان ، پریشان گئے ہم

ـ ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغ آخر شب صرف

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ آخرِ شب،  صرف
اب اس کے بعد تمھارے لئے ہیں رنگ سبھی

سبھی رتیں، سبھی موسم، تمھیں سے مہکیں گے
ہر ایک لوحِ زماں پر تمھارے نام کی مہر

ہر ایک صبح تمہاری جبیں پہ سجدہ گزار
طلوعِ مہرِ درخشاں، فروغِ ماہ تمام

یہ رنگ و نور کی بارش تمھارے عہد کے نام
اب اس کے بعد یہ ہو گا، کہ تم پہ ہونا ہے

ورود نعمتِ عظمیٰ ہو یا نزولِ عذاب
تمہی پہ قرض رہے گی تمہارے فرض میں ہے

دلوں کی زخم شماری غمِ جہاں کا حساب
گناہِ وصل کی لذت کہ ہجرتوںکا ثواب

تمام نقش تمھیں کو سنوارنا ہوں گے
رگوں میں زہر کے نشتر اتارنا ہوں گے

اب اس طرح ہے کہ گزرے دنوں کے ورثے میں
تمہاری نظر ہیں، ٹکڑےشکستہ خوابوں کے

جلے ہوۓ،کئی خیمے دریدہ پیراہن
بجھے چراغ ،لہو انگلیاں ،فگار بدن

یتیم لفظ ، ردا سوختہ ، انا کی تھکن
تمھیں یہ زخم تو آنکھوں میں گھولنا ہوں گے

عذاب اور بھی پلکوں پہ تولنا ..ہوں گے
وہ یوں بھی ہے کہ اگر حوصلے سلامت ہوں

بہت کٹھن بھی نہیں راہ گزارِ دشتِ جنوں
یہی کہ آبلہ سے جی نہ اکتائے

جراہتوں  کی مشقت سے دل نہ گھبرائے
رگوں سے درد کا سیماب اس طرح پھوٹے

نشاط کرب کا عالم فضا میں طاری ہو
کبھی جو طبل بجے مقتل حیات سجے

تو ہر قدم پہ لہو کی سبیل جاری ہو
جو یوں نہیں تو چلو اب کے اپنے دامن پر

بہ فیضِ کم نظری داغ بیشمار سہی
ادھر یہ حال کہ موسم خراج مانگتا ہے 

ادہر یہ رنگ کہ ہر عکس آئینے سے خجل
نہ دل میں زخم نہ آنکھوں میں آنسؤں کی چمک

جو کچھہ نہی تو یہی رسمِ روزگار سہی
نہ ہو نصیب رگِ گل تو نوکِ خار سہی

جو ہو سکے تو گریباں کے تار سی لینا
وگرنہ تم بھی ہماری طرح سے جی لینا

اقبال ـ آبتائوں تجھ کو رمز آیۂ 'ان الملوک'

آبتائوں تجھ کو رمز آیۂ 'ان الملوک'
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دلبری

خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزری

از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن
تا تراشی خواجہ ے از برہمن کافر تری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

گرمی گفتار اعضائے مجالس، الاماں!
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو


شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال
کتاب کا نام : بانگ درا