اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن

12/16/2014

شاعر
 
غمِ دوراں نے بھی سیکھے غمِ جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
 
وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
 
کس کو دیکھا ہے کہ پندارِ نظر کے با وصف
اِک لمحے کیلئے رک گئی دل کی دھڑکن
 
کونسی فصل میں اس بار ملے ہیں تجھ سے
ہم کو پرواہِ گریباں ہے نہ فکرِ دامن
 
ایسی سُونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگیِ صبحِ وطن

محسن: اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
 
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
 
سرخیان امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حروف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
 
جس کی چوٹی پہ بسایا تھا قبیلہ میں نے
زلزلے جاگ پڑے ہیں اُسی کہسار کے بیچ
 
کاش اس خواب کو تعبیر کہ مہلت نہ ملے
شعلے اگلتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
 
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف ِ اشجار کے بیچ
 
رزق، ملبوس، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ
 
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اُسے اغیار کے بیچ

 

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

 
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اُن کے پاس جاتے ہیں مگر آہِستہ آہستہ
 
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
 
دریچوں کو تو دیکھو چِلمنوں کے راز کو سمجھو
اُٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ
 
زمانے بھر کی کیفیت سمٹ آئے گی ساغر میں
پِیو اِن انکھڑیوں کے نام پر آہستہ آہستہ
 
یونہی اِک روز اپنے دل کا قصّہ بھی سنا دینا
خطاب آہِستہ آہِستہ نظر آہستہ آہستہ

میرے محبوب وطن کی گلیو!

 
میرے محبوب وطن کی گلیو!
تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام
اپنے زخمی شباب کو تسلیم
اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام
 
عمر بھر کے لیے تمھارے پاس
رہ گئی ہے شگفتگی میری
آخری رات کے اداس دیو!
یاد ہے تم کو بے بسی میری؟
 
یاد ہے تم ک جب بھلائے تھے
عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے
رسم و مذہب کی اک پجارن نے
ایک چاندی کے دیوتا کے لیے
 
جانے اس کارگاہِ ہستی میں
اس کو وہ دیوتا ملا کہ نہیں
میری کلیوں کا خون پی کے بھی
اس کا اپنا کنول کھلا کہ نہیں
 
سنا آج کل اس کے دامن میں
پیار کے رنگ ہیں کہ پیسے ہیں
تم کو معلوم ہو تو بتلانا
اس کے آنچل کے رنگ کیسے ہیں
 
مجھ کو آواز دو کہ صبح کی اوس
کیا مجھے ابھی یاد کرتی ہے؟
میرے گھر کی اداس چوکھٹ پر
کیا کبھی چاندنی اتری ہے؟

معاشران خرابات حرف سادۂ مئے

حرفِ سادہ
 
معاشرانِ خراباتِ حرفِ سادۂ مئے
زبانِ دل سے کبھی عارفانہ بھی سنتے
 
قتیلِ زمزمۂ وصلِ نالۂ ہجراں
نوائے حسرتِ غیر عاشقانہ بھی سنتے
 
روایتِ ابدی پر یقین سے پہلے
حقیقتِ اذلی کا ترانہ بھی سنتے
 
اس انتہائے جلال و جمال سے آگے
خیال کا سبقِ ناصحانہ بھی سنتے
 
زکوٰۃ دل کبھی دیتا غرورِ کج کُلہی
نکاتِ ذہن کبھی عاجزانہ بھی سنتے
 
یہ دوڑتی ہوئی راتیں، یہ بھاگتے ہوئے دن
صدائے مسئلۂ جاودانہ بھی سنتے
 
حدیث کی روشِ عامیانہ سے ہٹ کر
خِرد کا تذکرۂ عالمانہ بھی سنتے
 
یہ قِراتوں کے دھوئیں میں گھٹے ہوئے ماحول
ہوا کا زمزمۂ بیکرانہ بھی سنتے
 
سیاسیاتِ و تمدن کے ناز پروردہ
صعوبتِ قفس و تازیانہ بھی سنتے
 
یہ قید و بند یہ تعزیر عام باتیں
شکایتِ دل و جاں مشفقانہ بھی سنتے
 
سزا جزا کے عوض آدمی سے عرضِ حیات
وفا جفا کی طرح دوستانہ بھی سنتے
 
مصاحبوں نے بہت کچھ جنہیں بتایا ہے
زبانِ خلقِ خدا غائبانہ بھی سنتے
 
غرورِ عشق کو خوئے نیاز سے ملتے
تعّلیوں کو مِری شاعرانہ بھی سنتے

: نفس کو فکر جو ہر ہے جہاں میں ہوں

نَفس کو فِکرِ جو ہر ہے جہاں میں ہوں
سمندر ہی سمندر ہے جہاں میں ہوں

بجھی جاتی ہیں قندیلیں توہُم کی
طلوعِ عقلِ خاور ہے جہاں میں ہوں

نظر آتی ہے اپنی ماہیت جس میں
وہ آئینہ میسر ہے جہاں میں ہوں

اَزل کی بے نقابی او ر اَجل کی بھی
سبھی امکاں کے اندر ہے جہاں میں ہوں

نہ کوہِ قاف کی پریوں کے جھرمٹ ہیں
نہ غولِ دیو اژدر ہے جہاں میں ہوں

نہ سفاکی، نہ دلداری کی رسمیں ہیں
نہ مرہم ہے نہ خنجر ہے جہاں میں ہوں

خد ا ہے اپنے نیلے آسمانوں میں
زمیں ہے، خیر ہے، شَر ہے جہاں میں ہوں

قدم اُٹھتے ہیں نامعلوم سمتوں کو
ہر اِک شے بے مقدر ہے جہاں میں ہوں

نَفس ہے تَشنگی کا دشتِ بے منزل
نَفس ہی موجِ کوثر ہے جہاں میں ہوں

بدن کیا چیز ہے خود میرا سایہ بھی
مِرے سائے سے باہر ہے جہاں میں ہوں


تیری راہ پر ہم نے کلیاں بکھیری تھیں

چراغاں

تیری راہ پر ہم نے کلیاں بکھیری تھیں
 تارے سجائے تھے کیا کچھ کیا تھا
جو برسوں سے چاک و دریدہ چلا آ رہا تھا
وہ اپنا گریباں سِیا تھا
نئے پھول مالی سے منگوائے تھے
بام و در پر نیا رنگ و روغن کیا تھا
کتابیں سلیقے سے رکھ دیں تھی
بوتل ہٹا دی تھی گھر میں چراغاں کیا تھا
اگر عِلم ہوتا کہ تو آج کی شب نہ آئے گی 
توحسبِ معمول رہتے
ترے غم کی مدھم سی آتش میں جلتے
مگر تجھ سے دل کی حکایت نہ کہتے
نہ کہتے کہ اب اک رگ سے
اک ایک مُوئے بدن سے دھواں اُٹھ رہا ہے
جو ٹھیرا تھا اپنی خودی کی سرائے میں
وہ ضبطکا کارواں اُٹھ رہا ہے
تجھے آج تک خط نہ لکھا تھا اور آج بھی
نہ لکھتے کہ ہم مر رہے ہیں
نگاہوں سے سب کچھ بتاتے
اشارے سے کہتے کہ دل کو لہو کر رہے ہیں
مگر تیری غفلت نے
{شاید تیرے شیوۂ امتحاں نے }
یہ منزل دکھا دی
کہ تھم تھم کے آنسو نکلتے تھے پہلے
مگر آج تو دل کی ندّی چڑھا دی
اُٹھے تھے کہ جشنِ چراغاں منائیں
مگر دل کے سارے دیئے سو گئے ہیں
چلے تھے کہ دنیا کو رستہ دکھائیں
اور اب جیسے جنگل میں خود کھو گئے ہیں

کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا


 
کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا
 
قُلزم نے بڑ ھ کے چوم لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا
 
اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طوقِ فردِ جرم تھا، کس کے گلے میں تھا
 
اِک رشتۂ وفا تھا سو کس نا شناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا
 
صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا
 
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا
 
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا

جاگ اے نرم نگاہی کے پراسرار سکوت

دو راہہ
 
جاگ اے نرم نگاہی کے پراسرار سکوت
آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے
جو خود اپنے ہی سلا سل میں گرفتار رہے
اُن خداؤں سے میرے غم کی دوا کیا ہو گی

سوچتے سوچتے تھک جائیں گے نیلے ساگر
جاگتے جاگتے سو جائے گا مدھم آکاش
اِس اچھلتی ہوئی شبنم کا ذرا سا قطرہ
کسی معصوم سے رخسار پہ جم جائے گا
ایک تارہ نظر آئے گا کسی چلمن میں
ایک آنسو کسی بستر پہ بکھر جائے گا
ہاں مگر تیرا یہ بیمار کدھر جائے گا

میں نے اک نظم میں لکھا تھا کہ اے روحِ وفا
چارہ سازی تیرے ناخن کی رہینِ منت
غم گساری تیری پلکوں کی روایات میں ہے
ایک چھوٹی سی ہی امیدِ طرب زار سہی
ایک جگنو کا اجالا میری برسات میں ہے
لذتِ عارض و لب، ساعتِ تکمیل وصال
میری تقدیر میں ہے اور تیرے ہاتھ میں ہے

دیر سے، کعبے سے، ادراک سے بھی اکتا کر
آج تک دل کو اجالے کی طلب ہوتی ہے
ایک دن آئے گا جب اور بھی عریاں ہو کر
آدمی جینے کو تھوڑی سی ضیا مانگے گا

گیت کے، پھول کے، اشعار کے، افسانوں کے
آج تک ہم نے بنائے ہیں کھلونے کتنے

یہ کھلو نے بھی نہ ہوتے تو ہمارا بچپن
سوچتا ہوں کہ گزرتا تو گزرتا کیسے
آدمی زیست کے سیلاب سے لڑتے لڑتے
بیچ منجدھار میں آتا تو ابھرتا کیسے

دیر سے روح پہ اک خوابِ گراں طاری ہے
آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے

آج پھر دوشِ تمنا پہ ہے دل کا تابوت
جاگ اے نرم نگاہی کے مسیحانہ سکوت

ورنہ انسان کی فطرت کا تلّون مت پوچھ
اِس سِن و سال کا مغرور لڑکپن مت پوچھ

آدمی تیری اس افتاد سے بد دل ہو کر
اور دو چار خداؤں کے عَلم پوجے گا

اور اِک روز اس انداز سے بھی اکتا کر
اپنے بے نام خیالوں کے صنم پو جے گا

انکار کو ٹھکرائے نہ، اقرار کو چاہے

نذرِ غالب
 
اس کشمکشِ ذہن کا حاصل نہیں کچھ اور
انکار کو ٹھکرائے نہ، اقرار کو چاہے
 
مفرور طلب رات کو حاصل کرے بن باس
مغرور بدن گرمیِ بازار کو چاہے
 
سنبھلے نہ خمِ زیست سے بوجھ آب و ہوا کا
آسائشِ دنیا درو دیوار کو چاہے
 
آنکھیں روشِ دوست پہ بچھتی چلی جائیں
اور دوست کہ طبعِ سرِ خود دار کو چاہے
 
قوم ایسی کہ چلتے ہوے اشعار سے مانوس
مضمون کے اس صورتِ دشوار کو چاہے
 
اک دل کہ بھرا آئے نہ سمجھے ہوے غم سے
اک شعر کہ پیرایہ ء اظہار کو چاہے

محسن: اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا

 
اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
 
پلکوں پہ آ کے رک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا
 
شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا
 
آ کر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئ
الزام احتیاطِ گریباں کے سر گیا
 
زنجیرِ ماتمی ہے تم اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دِوانہ تو مر گیا

محسن: جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی

 
جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
مدتوں اپنے بدن سے تیری خوشبو آئی
 
میرے مکتوب کی تقدیر کے اشکوں سے دھُلا
میری آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئی
 
اپنے سینے پہ لِیئے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ
اب تو ان راہ گزاروں میں میری خو آئی
 
یوں امڈ آئی کوئی یاد میری آنکھوں میں
چاندنی جیسے نہانے کو لبِ جو آئی
 
ہاں، نمازوں کا اثر دیکھ لیا پچھلی رات
میں ادھر گھر سے گیا تھا کہ ادھر تو آئی
 
مژدہ اے دل کسی پہلو تو قرار آ ہی گیا
منزِلِ دار کٹی ساعتِ گیسو آئی

محسن: میرے قاتل کو پکارو کے میں زندہ ہوں ابھی

 
میرے قاتل کو پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
پھر سے مقتل کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
یہ شب ہجر تو ساتھی ہے میری برسوں سے 
جاؤ سو جاؤ ستارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
یہ پریشان سے گیسو دیکھے نہیں جاتے 
اپنی زلفوں کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
لاکھ موجوں میں گھرا ہوں ، ابھی ڈوبا تو نہیں 
مجھ کو ساحل سے پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
قبر سے آج بھی محسن کی آتی ہے صدا 
تم کہاں ہو میرے یارو کہ میں زندہ ہوں ابھی