فغاں رُک گئی ہے نوا تھک چُکی ہے
حضُورِ خدا ہر دعا تھک چُکی ہے
کئی زمزمے جاگ کر سو چُکے ہیں
کئی جنگلوں میں ہوا تھک چُکی ہے
نواہائے معنی کی ٓہٹ ہے مدھم
عُروسِ ادب کی حیا تھک چُکی ہے
اُدھر شُعلئہ حُسن کجلا گیا ہے
اِدھرچل کےشب بھرصباتھک چُکی ہے
نئے دور کی اُلجھنیں کہہ رہی ہیں
کہ اب رُوحِ ارض و سما تھک چُکی ہے
لہک سو گئی ہے مہک سو گئی ہے
چمن لُٹ گئے ہیں صبا تھک چُکی ہے
ادھر قافلے راستے کھو چُکے ہیں
اِدھر ہمتِ رہنما تھک چُکی ہے