اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

مصطفی زیدی ـ پہلی محبت کے نام

3/05/2014

وقت سے کس کا کلیجہ ہے کہ ٹکرا جائے
وقت انسان کے ہر غم کی دوا ہوتا ہے 

زندگی نام ہے احساس کی تبدیلی کا
صرف مر مر کے جیئے جانے سے کیا ہوتا ہے 

تو غم دل کی روایات میں پابند نہ ہو
غم دل شعر و حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں 

یہ تری کم نظری ہے کہ تیری آنکھوں میں 
ایک مجبور شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں 

ارتقاء کی نئی منزل پہ مصور کی نگاہ
اپنی تصویر کے انداز بدل جاتی ہے 

زاویئے پاؤں کے ہر رقص میں ہو تے ہیں جدا
ہر نئے ساز پہ آواز بدل جاتی ہے 

یہ مرا جرم نہیں ہے کہ جرس کے ہمراہ
میں نئی راہ گزاروں پہ نکل آیا ہوں 

میرے معیار نے اک اور صنم ڈھال لیا
میں ذرا دور کے دھاروں پہ نکل آیا ہوں 

پھر بھی تقدیر کو اس کھیل میں کیا لطف ملا
(تیرے نزدیک جو ہم معنیِ الزام بھی ہے) 

آج جس سے مرے آنگن میں دیئے جلتے ہیں 
تیری ہم شکل بھی ہے اور تیری ہم نام بھی ہے

ظہیر کاشمیری - ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب


یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے
فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو!
زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے

ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے
ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے

سنا ہے آج کے دن زندگی شہید ہوئی
اسی خوشی میں تو ہر سمت دیپ مالا ہے

ظہیر ہم کو یہ عہدِ بہار، راس نہیں
ہر ایک پھول کے سینے پہ ایک چھالا ہے


​ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ازہر درانی


مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی​

مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا​
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی​

میں دیکھتا ہوں ہر اک سمت پنچھیوں کا ہجوم​
الٰہی خیر ہو صیاد کے گھرانے کی​

قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو​
کہ سرکشی کو تو عادت ہے سر اُٹھانے کی​

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے​
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی​

ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر​
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی​

انور سلیم - سلیم ہم بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں​


سلیم ہم بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں​
مگر وہ بات کہاں کشتیاں جلانے کی​

محسن نقوی - اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ


قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ

سرخیان امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حروف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ

جس کی چوٹی پہ بسایا تھا قبیلہ میں نے
زلزلے جاگ پڑے ہیں اُسی کہسار کے بیچ

کاش اس خواب کو تعبیر کہ مہلت نہ ملے
شعلے اگلتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف ِ اشجار کے بیچ

رزق، ملبوس، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اُسے اغیار کے بیچ