اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

عدم - وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

7/19/2012

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ   شگفتہ  بہانے  ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات 
جبینیں تری ، آستانے ترے 

بس اک زخمِ نظّارہ، حصّہ مرا 
بہاریں تری ، آشیانے ترے 

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی 
شرابیں تری ، بادہ خانے ترے 

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام 
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے 

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم 
برے یا بھلے، سب زمانے ترے 

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ 
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے 

افتخار عارف - صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ


آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ

ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اک نظر تو بھی تضاد منبر و محراب دیکھ

دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سوئے سینہٴ احباب دیکھ

موجہٴ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر
کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیر آب دیکھ

بوند میں سارا سمندر آنکھ میں کل کائنات
ایک مشتِ خاک میں سورج کی آب و تاب دیکھ

کچھ قلندر مشربوں سے راہ و رسم عشق سیکھ
کچھ ہم آشفتہ مزاجوں کے ادب آداب دیکھ

شب کو خط نور میں لکھّی ہوئی تعبیر پڑھ
صبح تک دیوار آئیندہ میں کھلتے باب دیکھ

افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

محمد علی جوہر - قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے


دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد 

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے 
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد 

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں 
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد 

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے 
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

فیض - کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں نہ نشاں
نہ سرخیٴ لب خنجر نہ رنگ نوک سناں

نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہ جزا دیتے

نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا 
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا

پکارتا رہا، بے آسرا ، یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ

نہ مدعی ، نہ شہادت ، حساب پاک ہوا 
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

نظام دین - جو بھی جاتا ہے وہاں لوٹ کے آتا ہی نہیں


جو بھی جاتا ہے وہاں لوٹ کے آتا ہی نہیں
کوئی بتلاؤ تہہِ خاک تماشہ کیا ہے

مرزا سلطان بیگ المعروف نظام دین



احمد ندیم قاسمی - آپ دستار اُتاریں تو کوئی فیصلہ ھو

آپ   دستار   اُتاریں   تو   کوئی   فیصلہ   ھو

لوگ کہتے ھیں کہ سر ھوتے ھیں دستاروں میں

آج بھی ملتے ھیں منصور ھزاروں لیکن
اب انا الحق کی صلابت نہیں کرداروں میں

نہ  کرو   ظلِ الہی   کی   برائی   کوئی
دوستو کفر نہ پھیلائو نمک خواروں میں

وھی ھر دور کے نمرود کے مجرم ھیں جنہیں
پھول کھلتے نظر آ جاتے  ھیں  انگاروں  میں

حشر آنے کی ابھی تو کوئی  تقریب   نہیں
ابھی کچھ نیکیاں زندہ ھیں گنہگاروں  میں