آیا اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
وہ اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کی لَے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں
اس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال
اس کا وفور اس کا خروش، اس کا سوز و ساز
یہ گیت مثلِ شعلۂ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
جیسے چراغ وحشتِ صر صر سے بے خطر
یا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر