ہر ايک زخم کا چہرہ گلا جيسا ہے
مگر يہ جاگتا منظر بھی خواب جيسا ہے
يہ تلخ تلخ سا لہجہ ، يہ تيز تيز سی بات
مزاج يار کا عالم شراب جيسا ہے
مرا سخن بھی چمن در چمن شفق کي پھوار
ترا بدن بھی مہکتے گلاب جيسا ہے
بڑا طويل ، نہايت حسيں ، بہت مبہم
مرا سوال تمہارے جواب جيسا ہے
تو زندگی کےحقائق کی تہہ ميں يوں نہ اتر
کہ اس ندی کا بہاؤ چناب جيسا ہے
تری نظر ہی نہيں حرف آشنا ورنہ
ہر ايک چہرہ يہاں پر کتاب جيسا ہے
چمک اٹھے تو سمندر، بجھے تو ريت کي لہر
مرے خيال کا دريا سراب جيسا ہے
ترے قريب بھی رہ کر نہ پا سکوں تجھ کو
ترے خيال کا جلوہ حباب جيسا ہے
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں