سناٹا
آج پھر تم نے میرے دل میں جگایا ہے وہ خواب
میں نے جس خواب کو رو رو کے سلایا تھا ابھی
کیا ملا تمہیں انہیں پھر سے فروزاں کر کے
میں نے دہکے ہوئے شعلوں کو بجھایا تھا ابھی
میں نے کیا کچھ نہیں سوچا تھا کہ جانِ غزل
کہ میں اس شعر کو چاہوں گا، اسے پُوجوں گا
اپنی ترسی ہوئی آغوش میں تارے بھر کے
قصرِ مہتاب تو کیا عرش کو بھی چھُو لوں گا
تم نے تب وقت کو ہر زخم کا مرہم سمجھا
اور ناسور میرے دل میں چمکتے بھی رہے
لذت تشنہ لبی بھی مجھے شیشوں نے نہ دی
محفل عام میں تا دیر چھلکتے بھی رہے
اور اب جب نہ کوئی درد نہ حسرت نہ کسک
اک لرزتی ہوئی لو کو تہِ داماں نہ کرو
تیرگی اور بھی بڑھ جائے گی ویرانے کی
میری اُجڑی ہوئی دنیا میں چراغاں نہ کرو
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں