اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

مصطفی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مصطفی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مصطفی ۔ امید و بیم دست و بازوئے قاتل میں رہتے ہیں

5/24/2014

نذرِ داغ

اُمید و بیمِ دست و بازوئے قاتل میں رہتے ہیں
تمہارے چاہنے والے بڑی مشکل میں رہتے ہیں

نکل آ اب تو ان پردوں سے باہر، دُخترِ صحرا
کہ باہر کم ہیں وہ طوفان جو محمل میں رہتے ہیں

جنہیں دیکھا نہیں دنیا کی بے تعبیر آنکھوں نے
بہت سے لوگ ان خوابوں کے مستقبل میں رہتے ہیں

چلو افلاک کے زینوں پہ چڑھ کے عرش تک پہنچیں
کہ سید مصطفی زید ی اسی منزل میں رہتے ہیں

مصطفی ۔ تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے

سایہ

تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے
دھُواں دھُواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی
ہر ایک سمت سے چیخیں سنائی دیتی ہیں
صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی

گھنے درخت، درو بام، نغمہ و فانوس
تمام سحر و طلسمات و سایہ و کابوس
ہر ایک راہ پر آوازِ پائے نا معلوم
ہر ایک موڑ پہ ارواحِ زِشت و بد کا جلوس

سفید چاند کی اجلی قبائے سیمیں پر
سیاہ و سرد کفن کا گماں گزرتا ہے
فَضا کے تخت پہ چمگادڑوں کے حلقے ہیں
کوئی خلا کی گھنی رات سے اترتا ہے

تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے
کوئی چراغ جلاؤ، کوئی حدیث پڑھو

کوئی چراغ بہ رنگِ عذارِ لالہ رخاں
کوئی حدیث باندازِ صدقۂ دل و جاں
کوئی کِرن پئے تزئینِ غُرفہ و محراب
کوئی نوا پئے درماندگاں و سوختہ جاں

سنا ہے عالمِ روحانیاں کے خانہ بدوش
سحر کی روشنیوں سے گریز کرتے ہیں

سحر نہیں ہے تو مشعل کا آسرا لاؤ
لبوں پہ دل کی سلگتی ہوئی دعا لاؤ
دلوں کے غسلِ طہارت کے واسطے جا کر
کہیں سے خونِ شہیدانِ نینوا لاؤ

ہر اک قبا پہ کثافت کے داغ گہرے ہیں
لہو کی بوند سے یہ پیرہن دھلیں تو دھلیں
ہوا چلے تو چلے بادباں کھلیں تو کھلیں

مصطفی زیدی ـ پہلی محبت کے نام

3/05/2014

وقت سے کس کا کلیجہ ہے کہ ٹکرا جائے
وقت انسان کے ہر غم کی دوا ہوتا ہے 

زندگی نام ہے احساس کی تبدیلی کا
صرف مر مر کے جیئے جانے سے کیا ہوتا ہے 

تو غم دل کی روایات میں پابند نہ ہو
غم دل شعر و حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں 

یہ تری کم نظری ہے کہ تیری آنکھوں میں 
ایک مجبور شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں 

ارتقاء کی نئی منزل پہ مصور کی نگاہ
اپنی تصویر کے انداز بدل جاتی ہے 

زاویئے پاؤں کے ہر رقص میں ہو تے ہیں جدا
ہر نئے ساز پہ آواز بدل جاتی ہے 

یہ مرا جرم نہیں ہے کہ جرس کے ہمراہ
میں نئی راہ گزاروں پہ نکل آیا ہوں 

میرے معیار نے اک اور صنم ڈھال لیا
میں ذرا دور کے دھاروں پہ نکل آیا ہوں 

پھر بھی تقدیر کو اس کھیل میں کیا لطف ملا
(تیرے نزدیک جو ہم معنیِ الزام بھی ہے) 

آج جس سے مرے آنگن میں دیئے جلتے ہیں 
تیری ہم شکل بھی ہے اور تیری ہم نام بھی ہے

مصطفی ـ یہ ہے میری کہانی

2/16/2014

اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
  ساری جھوٹی باتیں ہیں
دن اپنے نہ راتیں ہیں
پل پل ایک کہانی ہے
جو جیون بھر دہرانی ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
  چہرے کیا تصویریں ہیں
نہ خواب ہیں نہ تعبیریں ہیں
آس ہے جو کہ جیون ہے
الجھا الجھا بندھن ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
  اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں

مصطفی ـ مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو


مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو
تھکے ہوے کھڑکیوں کے چہرے 

جلی ہوئی آسماں کی رنگت
سیاہ آفاق تک بگولے 

لہو کے آتش فشاں کی ساعت
وجود پر ایک بوجھ سا تھا

نہ صبح وعدہ نہ شام فرقت
اسی مہیب آتشیں گھڑی میں 

کسی کی دستک سنی تو دل نے 
کہا کہ صحرا کی چوٹ کھائے

کوئی غریب الدیار ہو گا
یہ سچ کہ دل کی ہر ایک دھڑکن

تمہارے درشن کے واسطے تھی
حیات کا ایک ایک لمحہ

تمہاری آہٹ کا منتظر تھا
مگر ایک ایسے دیار غم میں 

جہاں کی ہر چیز خشمگیں ہو
مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو

مصطفی ـ روایتوں کی ہزار صدیوں


روایتوں کی ہزار صدیوں 
سے بڑھ کے یہ لمحہ حسیں ہے 

لہو میں پھولوں کے حاشئے ہیں 
اداس کاسے میں انگبیں ہے 

یہ تم ہو یہ ہونٹ ہیں یہ آنکھیں 
مجھے یقیں ہے، مجھے یقیں ہے

مصطفی ـ زمیں نئی تھی فلک نا شناس تھا جب ہم


زمیں نئی تھی فلک نا شناس تھا جب ہم
تری گلی سے نکل کر سوئے زمانہ چلے 
نظر جھکا کہ بہ اندازِ مجرمانہ چلے 

چلے بَجیب دریدہ، بہ دامنِ صَد چاک
کہ جیسے جنسِ دل و جاں گنوا کے آئے ہیں 
تمام نقدِ سیادت لٹا کہ آئے ہیں 

جہاں اک عمر کٹی تھی اسی قلمرو میں 
شناختوں کے لیئے ہر شاہراہ نے ٹوکا
ہر اک نگاہ کے نیزے نے راستہ روکا

مصطفی ـ پہلا پتھر


صبا ہمارے رفیقوں سے جا کے یہ کہنا
بہ صَد تشکر و اخلاص و حسن و خو ش ادبی

کہ جو سلوک بھی ہم پر روا ہوا اس میں 
نہ کو ئی رمز نہاں ہے نہ کوئی بوالعجبی

ہمارے واسطے یہ رات بھی مقدر تھی
کہ حرف آئے ستاروں پہ بے چراغی کا
لباس چاک پہ تہمت قبائے زریں کی
دل شکستہ پر الزام بد دماغی کا

صبا جو راہ میں دشمن ملیں تو فرما نا
کہ یہ تو کچھ نا کیا، ہو سکے تو اور کرے
کہ اپنے دست لہو رنگ پر نظر ڈالے 
کہ اپنے دعوی ء معصومیت پہ غور کرے 

حدیث ہے کہ اصولاً گنہگار نہ ہوں 
گنہگار پہ پتھر سنبھالنے والے
اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں 
ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے 

مصطفی ـ جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا


جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا

کوئی تو غم گسار تھا، کوئی تو دوست تھا
اب کس کے پاس جائیں کہ ویرانہ چھٹ گیا

دنیا تمام چھٹ گئی پیمانے کے لیئے
وہ میکدے میں آئے تو پیمانہ چھٹ گیا

کیا تیز پا تھے دن کی تمازت کے قافلے 
ہاتوں سے رشتۂ شب افسانہ چھٹ گیا

اک دن حساب ہو گا کہ دنیا کے واسطے 
کن صاحبوں کا مسلک رندانہ چھٹ گیا

مصطفی ـ جہاں جلے تھے ترے حسنِ آتشیں کے کنول


جہاں جلے تھے ترے حسنِ آتشیں کے کنول
وہاں الاؤ تو کیا راکھ کا نشاں بھی نہ تھا
چراغ کشتۂ محفل دھواں دھواں بھی نہ تھا

مسافرت نے پکارا نئے افق کی طرف
اگر وفا کی شریعت کا یہ صلہ ہو گا
نئے افق سے تعارف کے بعد کیا ہو گا

دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا
آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا

تابشِ حُسن بھی تھی آتشِ دنیا بھی مگر
شُعلہ جس نے مجھے پھُونکا، میرے اندر سے اُٹھا

کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی
آگ بھی، ابر بھی، طوفان بھی ساغر سے اُٹھا

بے صَدف کتنے ہی دریاؤں سے کچھ بھی نہ ہوا
بوجھ قطرے کا تھا ایسا کہ سمندر سے اٹھا

چاند سے شکوہ بہ لب ہوں کہ سُلایا کیوں تھا
میں کہ خورشیدِ جہانتاب کی ٹھوکر سے اُٹھا

مصطفی ـ پہلی محبت کے نام مصطفی زیدی


وقت سے کس کا کلیجہ ہے کہ ٹکرا جائے
وقت انسان کے ہر غم کی دوا ہوتا ہے

زندگی نام ہے احساس کی تبدیلی کا
صرف مر مر کے جیئے جانے سے کیا ہوتا ہے

تو غم دل کی روایات میں پابند نہ ہو
غم دل شعر و حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں

یہ تری کم نظری ہے کہ تیری آنکھوں میں
ایک مجبور شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں

ارتقاء کی نئی منزل پہ مصور کی نگاہ
اپنی تصویر کے انداز بدل جاتی ہے

زاویئے پاؤں کے ہر رقص میں ہو تے ہیں جدا
ہر نئے ساز پہ آواز بدل جاتی ہے

یہ مرا جرم نہیں ہے کہ جرس کے ہمراہ
میں نئی راہ گزاروں پہ نکل آیا ہوں

میرے معیار نے اک اور صنم ڈھال لیا
میں ذرا دور کے دھاروں پہ نکل آیا ہوں

پھر بھی تقدیر کو اس کھیل میں کیا لطف ملا
(تیرے نزدیک جو ہم معنیِ الزام بھی ہے)

آج جس سے مرے آنگن میں دیئے جلتے ہیں
تیری ہم شکل بھی ہے اور تیری ہم نام بھی ہے

زمین سکتے میں ہے کہ کیونکر

2/13/2014


زمین سکتے میں ہے کہ کیُونکر
زمین پر ماہ تاب ابھرا
یہ آگ کیسے بنی شَبِستاں 
کَہاں سے آنکھوں کا خواب کا اترا

مصطفی زیدی ـ سراب

2/06/2014

ہر صَدا ڈُوب چُکی ، قَافلے وَالوں کے قَدم
ریگ زَاروں میں بگُولوں کی طرح سو تے ہیں
دُور تک پھیلی ہو ئی شَام کا سنّاٹا ہے
اور میں ایک تھکے ہارے مسافر کی طرح
سو چتا ہُوں کہ مآلِ سَفرِ دِل کیا ہے
کیُوں خَزف راہ میں خُورشِید سے لَڑ جاتے ہیں
تِتلِیاں اُڑتی ہیں اَور اُن کو پَکڑنے وَالے
یہی دَیکھا ہے کہ اپنوں سے بِچَھڑ جاتے ہیں فَرہاد
اِس سے مِلنا تو اِس طَرح کہنا:۔
تُجھ سے پَہلے مِری نِگاہوں میں
کَوئی رُوپ اِس طَرح نہ اُترا تھا
تَجھ سے آباد ہے خَرابۂ دِل
وَرنَہ میں کِس قَدر اَکیلا تھا
تیرے ہونٹوں پہ کوہسار کی اوس
تیرے چہرے پہ دھوپ کا جادو
تیری سانسوں کی تھرتھراہٹ میں
کونپلوں کے کنوار کی خوشبو
وہ کہے گی کہ ان خطابوں سے
اور کس کس پہ جال ڈالے ہیں
تم یہ کہنا کہ پیش ساغر جم
اور سب مٹیوں کے پیالے ہیں
ایسا کرنا کہ احتیاط کہ ساتھ
اس کہ ہاتھوں سے ہات ٹکرانا
اور اگر ہو سکے تو آنکھوں میں
صِرف دو چار اشک بھر لانا
عشق میں اے مبصّرین کرام
یہ ہی تیکنیک کام آتی ہے
اور یہ ہی لے کے ڈوب جاتی ہے 

مصطفی زیدی ـ یہ ہے میری کہانی

2/05/2014


یہ ہے میری کہانی
خاموش زندگانی

سناٹا کہہ رہا ہے
کیوں ظلم سہہ رہا ہے

اک داستاں پرانی
تنہائی کی زبانی

ہر زخم کھل رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے

چھبتے کانٹے یادوں کے
دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں

بس یہ میری کہانی
بے نشاں نشانی

اک درد بہہ رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے

چھبتے کانٹے یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بجائے پیار کے شبنم میرے گلستاں میں

برستے رہتے ہیں ہر سمت موت کے سائے
سیاہیوں سے الجھ پڑتی ہیں میری آنکھیں

کوئی نہیں کوئی بھی نہیں جو بتلائے
میں کتنی دیر اجالوں کی راہ دیکھوں گا

کوئی نہیں ہے کوئی بھی نہیں نہ پاس نہ دور
اک پیار ہے دل کی دھڑکن

اپنی چاہت کا جو اعلان کیے جاتی ہے
زندگی ہے جو جیے جاتی ہے
خون کے گھونٹ پیے جاتی ہے
خواب آنکھوں سے سیے جاتی ہے

اب نہ کوئی پاس ہے
پھر بھی احساس ہے

راہیوں میں الجھی پڑی
جینے کی اک آس ہے

یادوں کا جنگل یہ دل
کانٹوں سے جل تھل یہ دل

چھبتے کانٹوں یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں

مصطفی زیدی - حدیث ہے کہ اصولا گناہگار نہ ہوں

3/05/2013


حدیث ہے کہ اصولا گناہگار نہ ہوں
گناہگار پہ پتھر سنبھالنے والے

خود اپنی آنکھ کے شہتیر کی خبر رکھیں
ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے


مصطفی زیدی - بہ نام وطن

12/31/2012

کون ہے جو آج طلبگار نیاز و تکریم
وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم

وہی عیّار گھرانے وہی فرزانہ حکیم
وہی تم لائقِ صد تذکرہ و صد تقویم

تم وہی دُشمن احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں

تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی 
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی

اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی

آج تم مجھ سے مری جنس گراں مانگتے ہو
حَلَفِ ذہن و وفادارئ جاں مانگتے ہو

جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو 
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو

اپنے دربانوں سے بدتر فُقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو

مجھ سے پوچھوگے تو خنجر سےعُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا

تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے 
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے

اپنی آسائش ایک عُمر گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے

علم نے خونِ رگِ جاں‌دیا اور نہ مَرا
علم نے زہر کا ہیمانہ پیا اور نہ مَرا

علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو

عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسوُ

وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا

تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں 
عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں

مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
کس کے خرمن کے لیے شعلہء اسرار بنوں

کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں

صُبح کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے

کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
بال جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے

یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو

کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار فلک

کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک

دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے

بہ وفادارئ رہ وار و بہ تکریمِ علم
بہ گہر بارئ الفاظ صنا دیدِ عجم

بہ صدائے جرس قافلئہ اہلِ قلم
مجھ کوہرقطرہء خُون شُہدا تیری قسم

منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
جُھک پڑے گا در زنداں مرے سر سے پہلے

آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست

نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست

تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں

ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں 
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں

گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں

کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی تو کل پُھوٹیں گی

کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم 
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم

رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھرکےچُولھےسےاُترتی ہوئی روٹی کی قسم

زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے

ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے 
ایک اک خوشئہ گندم تمہیں کیا کہتا ہے

ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
آگ اچھی ہے کہ دستور  نمو اچھا ہے

محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟

بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
تمغئہ مکر سے سینوں کو سجانے والوں

کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں

دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جُھکا کر آؤ

کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے 
مصر میں جلوہء یوسف کی دکاں جلتی ہے

عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے

چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح

صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں 
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں

کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں

اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں

تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا

کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا

اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ

اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
اتنی پرخار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی

کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی

اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ تمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں

اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے

درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے

کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھالی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے

رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں 
صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں

اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں

ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے

عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول

طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول

آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی