چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکير تھی
قاتل کے ہاتھ ميں تو حنا کی لکير تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
ميرے لبوں پہ حرف دعا کی لکير تھی
ميں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ريت پر وہ ہوا کی لکير تھی
سورج کو جس نے شب کے اندھيروں ميں گم کيا
موج شفق نہ تھی وہ قضا کی لکير تھی
گزرا ہے سب کو دشت سے شايد وہ پردہ دار
ہر نقش پا کے ساتھ ردا کی لکير تھی
کل اس کا خط ملا کہ صحيفہ وفا کا تھا
محسن ہر ايک سطر حيا کی لکير تھی
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں