اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

شب گزرتی دکھائی دیتی ہے

2/24/2013



شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن  نکلتا  دکھائی  نہیں  دیتا



اقبال - فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی

مرد حق چوں اشتراں بارے برد
مرد حق بارے برد خارے خورد

اقبال - غلامی کیا ہے، ذوق حسن وزیبائی سے محرومی



غلامی کیا ہے، ذوق حسن وزیبائی سے محرومی
جسے  زیبا  کہیں  آزاد  بندے،  ہے  وہی  زیبا

بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت  پر
کہ دنیا میں فقط  مردانِ حر کی  آنکھ  ہے  بینا 

جالب - تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشین تھا


تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشین تھا
اسکو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا


عجب دیوار اک دیکھی ہے میں نے آج رستے میں


عجب دیوار اک دیکھی ہے میں نے آج رستے میں
نہ کچھ دیوار کے آگے نہ کچھ دیوار کے پیچھے

اصغر گونڈوی - غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے


غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے

پربھا - میں آپ اپنی تلاش میں ھوں میرا کوئ رھنما نھیں ھے

میں آپ اپنی  تلاش  میں  ہوں میرا  کوئ  رھنما  نھیں  ھے
وہ  کیا بتائیں  گے راہ مجھکو کہ جن  کو اپنا پتا  نھیں ھے

یہ انکے مندر یہ انکی مسجد  یہ  بتکدے  اور  سجدہ گاھیں
اگر یہ انکے خدا کے گھر ھیں تو ان میں میرا خدا نھیں ھے

شعور سجدہ نھیں ھےمجھکو تم میرےسجدوں کی لاج رکھ لو
یہ سر تیرے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نھیں ھے

عجیب  شغل وفا ھے  جاری ، خدا  کو  چھوڑا  بنے  پجاری
صنم پرستو ں سے کوئ کہدے صنم صنم ہے خدا نھیں ھے

شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر ہے

شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر ہے
کہ اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں


فیض - ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی

ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی
جس بار خزاں آئي سمجھے کہ بہار آئي

آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی گل رنگ نظر آئی

لرزتا ہے میرا د ل زحمت مہردرخشاں پر

لرزتا  ہے  میرا  د ل زحمت مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرہ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر

اقبال - آں مسلماناں کہ میری کردہ اند


آں مسلماناں کہ میری کردہ اند
در شہنشاہی، فقیری کردہ اند

فیض - روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں


روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں 
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں 

اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں 
گوشے رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں 

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر 
کچھ کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں 

ان میں لُہو جلا ہو، ہمارا، کہ جان و دل 
محفل میں کچھ چراغِ فروزاں ہوئے تو ہیں 

ہاں کج کر و کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم 
اب بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں 

اہلِ قفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ 
بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں 

ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیض 
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں


غالب - کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو

کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینہ میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

کیا غمخوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تم ہی تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسماں کیوں ہو

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں 
عدو کے ہو لئے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
تِرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو


فیض - صبا نے پھر در زنداں پر آ کے دی دستک

صبا نے پھر در زنداں  پر آ  کے  دی  دستک
سحر قریب   ہے دل  سے کہو   نہ   گھبرائے

اقبال - تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محسشرعذرہاۓ من پذیر

گر تو می بینم حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر


اقبال - لا کر برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں

لا کر برہمنوں کو سیاست کے بیچ  میں
زناریوں کو   دیر کہن  سے  نکال  دو

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن   سے نکال  دو

فکر عرب  کو  دے  کے فرنگی  تخیلات
اسلام  کو  حجاز و یمن   سے  نکال   دو

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے    نکال   دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال   دو



شورش - قرن اول کی روایت کا نگہدار حسین

قرن اول کی روایت کا نگہدار حسین
بسکہ تھا لخت دل حیدر کرار حسین

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآن حکیم
وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حسین

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو
اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

ابوسفیان کے پوتے کی جہانبانی میں
عزت خواجۂ گیہاں کا نگہدار حسین

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور
عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا
حق کی آواز صداقت کا طرفدار حسین

وائے یہ جور جگر گوشۂ زہرا کے لئے
ہائے نیزے کی انی پر ہے جگر دار حسین

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی
ہر زمانے کے لئے دعوت ایثار حسین

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے
دور حاضر کے یزیدوں سے ہے دو چار حسین

شورش - ستم نواز مسخرے

سن ۱۹۷۲ میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں اُن کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کی طرف سے کراچی میں اردو کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلانے کے موقع پر لکھی گئی

عوام ہیں سَتائے جا
ابھار کر مِٹائے جا
چراغ ہیں بُجھائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
ترا بڑا مَقام ہے
تو مردِ خوش خرام ہے
اٹھائے جا، گِرائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
سِتم نواز مَسخرے
عَجب ہیں تیرے چوچلے
عوام کو نَچائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
قَبائے شب ادھیڑ کر
غزل کا ساز چھیڑ کر
گُلال ہیں لُٹائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
رَوِش روش چَمن چَمن
نَگر نَگر، دَمَن دَمَن
قیامتیں اُٹھائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
مزہ ہے تیرے ساتھ میں
سُبو ہے تیرے ہاتھ میں
شراب ہے پِلائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
تَھرک تَھرک، مَٹک مَٹک
اِدھر اُدھر لَٹک لَٹک
مزاجِ یار پائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
لَہوتِری غذا سہی
تو رِند پارسا سہی
حِکایتیں سُنائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
یہ چال کَٹ ہی جائے گی
یہ دال بَٹ ہی جائے گی
ابھی تو ہَمہَمائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
خُدا کا خوف چھوڑ کر
وَطن کی باگ موڑ کر
نشان ہیں لگائے جا
تو گولیاں چلائے جا
……
لُقَندروں کی فوج ہے
اِسی میں تیری موج ہے
حرام مال کھائے جا

شورش - ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں

سرفروشوں کے لئے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں

بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں

از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں

جانشینیان کلایو تھے خداوند مجاز
سِرِّ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں

حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے

شورش - زور بیان و قوت اظہار چھین لے

زور بیان و قوت اظہار چھین لے
مجھ سے مرے خدا مر ے افکار چھین لے

کچھ بجلیاں اتار  قضا کے لباس میں
تاج و کلاہ و جبہ و دستار چھین لے

عفت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر
نظارہ ہائے گیسو و رخسار چھین لے

شاہوں کو ان کے غرۃ بے جا کی دے سزا
محلوں سے ان کی رفعت کہسار چھین لے

میں اور پڑھوں قصیدۂ ارباب اقتدار
میرے قلم سے جرأت رفتار چھین لے

ارباب اختیار کی جاگیر ضبط کر
یا غم زدوں سے نعرۂ پیکار چھین لے









میر - ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

ہم  ہوئے  تم  ہوئے کہ  میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے  سے  دوا  لیتے  ہیں