اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

فیض - ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

3/18/2013

ہم پرورش لوح  و  قلم کرتے رہیں گے 
جو دل پہ گذری ھے رقم کرتے رہیں گے 

اسباب غم عشق بہم کرتے رہیں گے 
ویرانی دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے 

ہاں  تلخی  ایام   ابھی  اور  بڑھے  گی 
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے 

منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارہ 
دم ہے تو مداواء علم کرتے رہیں گے 

باقی ہےلہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا 
رنگ لب و  رخسار  صنم  کرتے  رہیں گے 

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک 
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

حالی - اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پر دیس  میں  وہ  آج  غریب  الغرباء  ہے

فریاد  ہے  اے کشتی  امت  کے  نگہباں
بیڑا  یہ  تباہی  کے  قریب  آن  لگا  ہے

اے  چشمہ  زمت  بابی  انت  و  امی
دنیا  پہ  تیرا  لطف  سدا عام رہا  ہے

خسرو - من تو شدم تو من شدی

من تو شدم  تو  من  شدی
من تن شدم  تو جان شدی

تا کس نہ  گوید  بعد  ازیں
من   دیگرم    تو   دیگری

نامعلوم - نسیما جانب بطحا گذر کن

نسیما جانب بطحا گذر کن
ز احوالم  محمد را خبر کن

توئی  سلطان  عالم  یا  محمد
ز روئے لطف سوئے من نظر کن

ز مہجوری برآمد جان عالم
ترحم  یا  نبی  اللہ   ترجم

فراز - برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال


برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
اب چشم بد ہے جانب خیبر لگی ہوئی

غیروں سے کیا گلہ ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ مرے گھر لگی ہوئی

متفرقات

یہ تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے
یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے

دوستو جگ ہنسائی نہ مانگو
موت مانگو رہائی نہ مانگو
عمر بھر سر جھکائے پھرو گے
سب سے نظریں بچائے پھرو گے

نہ جا امریکہ نال کڑے
ایہہ گل نہ دیویں ٹال کڑے

وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے

جانے والے تیری یاد بہت آتی ہے
گھورتی ہے تنہائی بے بسی ستاتی ہے

محبت گولیوں سے بو رہے ہو


محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

جالب - دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

دیپ  جس کا  محلات  ہی  میں  جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو  لے کر چلے
وہ  جو  سائے میں ہر مصلحت  کے  پلے

ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

میں بھی خائف  نہیں  تختۂ  دار  سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے  ہو  زنداں کی  دیوار  سے

ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنےلگے، تم کہو
جام  رندوں  کو  ملنے لگے، تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو

اِس کھلےجھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں  نہیں  مانتا،  میں  نہیں  جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر درد مندوں کے بنتے ہو کیوں

تم نہیں چارہ گر ،  کوئی  مانے،  مگر
میں  نہیں  مانتا ،  میں  نہیں  جانتا

جن سے خدا کا خوف بھی تھرّا کہ رہ گیا

جن سے خدا  کا خوف بھی تھرّا  کہ رہ گیا
اُن ظالموں سے خوفِ خدا مانگتے ہیں لوگ

اب اِس  فریب  عام  کی، توجیہہ  کیا  کریں
صرصر کا نام لے  کے، صبا  مانگتے ہیں لوگ

جالب - ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا


ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا 
پتھر کو گہر،دیوار کو در،کرگس کو ہما کیا لکھنا 

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں 
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں 

اے دیدہ ورو اس ذلت کوقسمت کا لکھا کیا لکھنا 
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا 

یہ اہل حشم ،یہ دارا و جم، سب نقش برآب ہیں اے ہمدم 
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم 

ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا 
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا 

لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری، کی ہم نے انہی کی غم خواری 
ہوتے ہیں تو ہوںیہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری 

ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا 
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا 

حق بات پہ کوڑے اور زنداں، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں 
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خون خوار درندے ہیں رقصاں 

اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا 
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا 

ہر شام یہاں شام ویراںآسیب زدہ رستے گلیاں 
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دل برباد کہاں 

صحرا کو چمن بن کو گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا 
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا 

اے میرے وطن کے فنکارو، ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو 
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو 

ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملااس غم کو نیا کیا لکھنا 
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

مومن - آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو


آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو

جس بُت کے لئے میں ہوسِ حور سے گُذراج
اس عشقِ خوش انجام کا آغاز تو دیکھو

چشمک مری وحشت پہ ہےکیا حضرتِ ناصح
طرزِ نگہِ چشمِ فُسوں ساز تو دیکھو

اربابِ ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے
کم طالعیِ عاشقِ جانباز تو دیکھو

مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اُٹھے وہ
بد نامیءِ عشاق کا اعزاز تو دیکھو

محفل میں تُم اغیار کو دُزدیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو

اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

دیں پاکیئِ دامن کی گواہی مرے آنسو
اس یوسفِ بیدرد کا اعجاز تو دیکھو

جنت میں بھی مومن نہ ملا ہائے بُتوں سے
جورِ اجلِ تفرقہ پرداز تو دیکھو

اقبال - تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

تو غنی از  ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے  من  پذیر
گر تو می  بینی  حسابم  ناگزیر
از  نگاہِ  مصطفی  پنہاں  بگیر

جامی - جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست

در دلِ مسلم مقامِ مصطفی ست
آبروئے ما زنامِ مصطفی ست

بوریا ممنون خوابِ راحتش
تاج کسریٰ زیرِ پائے اُمّتش

درشبستانِ حِرا خلوت گزید
قوم و آئین حکومت آفرید

در نگاہ او یکے بالا و پست 
با غلامِ خویش بریک خواں نشست

روز محشر اعتبار ماست اُو
در جہاں ہم پردہ دار ماست اُو

ماکہ از قید وطن بیگانہ ایم
چوں نگاہِ نور چشمیم و یکیم

من چہ گو یم از تولاّئش کہ چیست
خشک چو بے در فراقِ اوگریست

خاکِ یثرب ازدو عالم خوشتر است
اے خنک شہرے کہ آں جا دلبر است


ساحر - نور جہاں‌کے مزار پر

پہلوئے شاہ میں‌یہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں‌ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں‌کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لئے
سالہاسال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لئے
سرخ محلوں ‌میں ‌جواں جسموں‌کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند، مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی ہیں تزینِ حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظلِ سبحان کی اُلفت کے بھرم کی خاطر

کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کرسکتی تھی بے لوث وفاؤں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ماتھوں‌کا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ

سہمی سہمی سی فضا میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے، فریاد کناں‌ ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ‌ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے

تو مری جاں! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں‌ کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے، ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں‌مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں

ساحر - طرب زادوں پہ کیا بیتی، صنم خانوں پہ کیا گُزری

 طرب زاروں پہ کیا بیتی، صنم خانوں پہ کیا گُزری
دلِ زندہ! ترے مرحوم اَرمانوں پہ کیا گُزری

زمیں نے خون اُگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گُزری

ہمیں یہ فکر، ان کی انجمن کس حال ہو گی!
انھیں یہ غم کہ اُن سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گُزری

مِرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اَب تک
مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں پہ کیا گُزری

یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پُوچھو شبستانوں پہ کیا گُزری

چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خُدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گُزری

ساحر - مادام

آپ بے وجہ پریشان سی کیوں‌ ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جٍلا
ہم جہاں‌ہیں وہاں‌ تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک، آداب کے سانچوں‌میں ڈھل نہیں‌سکتی

لوگ کہتے ہیں تو لوگوں ‌پہ تعجب کیسا؟
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں۔۔۔۔۔مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ بھی کہیئے غریبوں میں شرافت کیسی

نیک مادام! بہت جلد وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے
اپنی ذلت کی قسم، آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے میعار پرکھنے ہوں گے

ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے، لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں‌محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں‌کو حنا بخشی ہے

لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل؟
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں‌گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میں جہاں‌ہوں، وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے

ساحر - فرار

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے

اپنی بیکار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں میں
اپنی بےسود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے

میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میراماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں

میری امیدوں کا حاصل میری خواہش کا صلہ
اک بےنام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنی بیکار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر

کتنی بےربط تمناؤں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر

مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نا پوچھو
مجھکو کہنے دو میں نے انہیں چاھا ہی نہیں

اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں
میں نے ان مست نگاہوں کو سراہا بھی نہیں

مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی زندگی ناکام نہیں

ان کو اپنانے کی خواہش انہیں پانے کی طلب
شوق بیکار سہی سایہ غم انجام نہیں

وہ کنول جن کو کبھیی ان کے لئے کھلنا تھا
وہی گیسو وہی نظر وہی آرد وہی جسم

میں جو چاھوں کہ مجھے اور بھی مل سکتے ہیں
ان کی نظروں سے بہت دور بھی کھل سکتے ہیں

ساحر - حیات

حیات اک مستقل غم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید
خوشی  بھی  یاد  آتی ہے  تو  آنسو  بن  کے آتی  ہے

اقبال - نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے

بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا  ہے

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے

کسے نہیں ہے تمنائے سروری ، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے

اشرف اقبال - اچانک صورت باد صبا آتی ہوئ آئ


اچانک صورت باد صبا آتی ہوئ آئ
جدھر گزری چمن میں رنگ برساتی ھوئ آئ

میں کم بیں تھا میں سمجھا فصل گل کی آمد آمد ھے
وہ منزل کی شہادت دے گئ جاتی ھوئ آئ

منیر - ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو


ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

غالب - پانی سےسگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

پانی سےسگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آیئنے سے کہ مردم گزیدہ ہوں