منّتِ حضرتِ عیسٰی نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے؟
چاکِ پردہ سے یہ غمزے ہیں، تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں ، وہی خارِ مُغیلاں ہوں گے
سنگ اور ہاتھ وہی ، وہ ہی سر و داغِ جنوں
وہی ہم ہوں گے، وہی دشت و بیاباں ہوں گے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے