اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

اقبال - خود فریبی ہائے او عین حیات

3/02/2013

خود  فریبی ہائے  او  عین حیات
ہمچو گل از خوں و ضو عین حیات

بہر یک گل خون صد گلشن کند 
از پئے یک نغمہ صد شیون کند 

شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت
تا چراغ یک محمد بر فروخت

عذر این اسراف و این سنگین دلی 
خلق    تکمیل    جمال    معنوی 


His self-deceits are the essence of his life, like the rose which derives life from the redness and radiance. He destroys a hundred flower-beds for the sake of a single rose, and indulges numerous lamentations for creating one melody. In order to light one lamp in the person of Prophet Mohammad (pbuh), its flames have burnt one hundred Abrahams. Creation and completion of the inner beauty was the pretext for all this lavishness and hard-heartedness.

اقبال - می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل


می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل
  
وا نمودن خویش را  خوئے خودی  است
خفتہ  در  ہر ذرہ   نیروئے  خودی  است
پیکر   ہستی    ز   اسرار   خودی    است
ہر چہ  مے  بینی  ز  اسرار  خودی  است

For the various stages of action it becomes itself the subject, the object, the cause and the stimulant. Displaying of the self is customary with the ego. In every particle lies hidden the power of the ego. The structure of existence is of the signs of the ego. Whatever you behold is of the secrets of the ego. Passing through the earner forms of life, consciousness came to its own and gained its freedom and self- consciousness in the human being for the first time since the beginning of creation.

اقبال - اے سوار اشہب دوراں بیا

اے سوار اشہب  دوراں بیا
اے فروغ  دیدۂ  امکاں  بیا

رونق   ہنگامۂ   ایجاد   شو
در سواد  دیدہ  ہا  آباد   شو

شورش اقوام را خاموش کن
نغمۂ خود را بہشت گوش کن

O white rider of the horse of time, come forth. 
O splendor of the eyes of this world, come forth.
Be the elegance of the commotion of inventions
Take thy abode in the environs of the eyes
Put down the discontent of the nations
Fascinate them with the melody of your songs of peace.

اقبال - او حدیث دلبری خواہد زمن

نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم
مثال   شاعراں   افسانہ   بستم

نہ بینی خیز ازاں مرد فرو دست
کہ بر من تہمت شعر و سخن بست

او  حدیث  دلبری  خواہد  زمن
رنگ و آب شاعری خواہد زمن

کم نظر بے تابئ جانم  ندید
آشکارم  دید  و  پنہانم   ندید

نغمہ کجا و من کجا، ساز سخن بہانہ ایست
سوئے  قطار  می  کشم  ناقۂ  بے زمام  را

پیکر  ہستی  ز  آثار  خودیسست
ہرچہ می بینی ز اسرار خودیست

زمین و آسمان و چار سو  نیست
دریں  عالم  بجز  اللہ   ہو  نیست

Don't you think that I feel intoxicated without drinking wine and that I have fabricated a story like poet.
You can never expect any good from that inferior man who caluminates me as a mere versifier. He wants me to speak sweet words of love and expects the style and radiance of poetry from me The short-sighted fellow did not see the restlessness of my soul; he simply saw my outwardness and not my inwardness.
There is a vast difference between me and the melody; the instrument of poetry is only a pretext. I do lead the bride-less dromedary to the string of camels. He hates, and dissociates himself from, all philosophy that is the outcome of a distorted and incomplete vision or intuition of Reality on the ground that it is divorced from the love of God. The structure of man's existence is a relic of his own self
whatever you see around, is one of the secrets of the self It is not the earth and the firmament that is spreading in all directions. In this universe there is nothing except the manifestation of God. Khudi signifies mind or consciousness. Since, wherever there is mind or consciousness.

حسرت - بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں


بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ اُلفت پر ، وہ کیوں کر یاد آتے ہیں

نہ چھیڑ اے ہم نشیں ، کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے ، مُجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد اُن کی ، مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں

حقیقت کُھل گئی حسرت ، ترے ترکِ محبّت کی
تُجھے تو اب وہ پہلے سے بھی ، بڑھ کر یاد آتے ہیں

اقبال - تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں

تیرے  محیط   میں  کہیں  گوہر   زندگی   نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف


اقبال - بجھی عشق کی آگ اندھیرہے

بجھی عشق کی آگ اندھیرہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

اقبال - نہیں ہے نا امید اقبال اپنی نکشت ویراں سے


نہیں ہے نا امید اقبال اپنی نکشت ویراں سے
ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اقبال - محبت کا جنوں باقی نہیں ہے


محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے

صفیں کج ، دل پریشان سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے


محسن نقوی - ہمارا کیا ہے؟



ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح

اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہوگی!
کہ جیسے تُند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے چمک کے کھو جائے
پھر اِس کے بعد کسی کو نہ کچھ سُجھائی دے
نہ شب کٹے نہ سُراغ سحر دکھائی دے!
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اِتنی راہ طَے ہوگی!

کہ جیسے تیز ہواؤں کی زد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھر کے مِٹ جائے
پھر اِس کے بعد نہ منزل نہ رہگذار ملے!
حدِ نگاہِ تلک دشتِ بے کنار ملے!!
ہماری سَمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلئہ دِل و جاں سے بچھڑنے والے ہیں
بسے بسائے ہوُئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانۂ ویراں اُجڑنے والے ہیں

اَب اِس کے بعد یہ ہو گا کہ تُم پہ ہونا ہے
ورُودِ نعمت عُظمٰے ہو یا نزولِ عذاب!
تُمہی پہ قرض رہے گی تمہارے فرض میں ہے
دِلوں کی زخم شُماری غمِ جہاں کا حِساب
گناہِ وصل کی لذّت کہ ہجرتوں کا ثواب؟
تمام نقش تمہی کو سنوارنا ہوں گے!
رگوں میں ضبط کے نشتر اُتارنا ہوں گے!
اب اِس طرح ہے کہ گذرے دنوں کے ورثے میں
تمہاری نذر ہیں ٹکڑے شکستہ خوابوں کے
جلے ہوئے کئی خیمے دریدہ پیراہن
بُجھے چراغ لہو انگلیاں فگار بدن
یتیم لفظ ردا سوختہ انا کی تھکن
تُمہیں یہ زخم تو آنکھوں میں گھولنا ہوں گے
عذاب اور بھی پلکوں پہ تولنا ہوں گے

جو یوُں نہیں تو چلو اب کے اپنے دامن پر
بہ فیضِ کم نظری داغ بے شُمار سہی!
اُدھر یہ حل کہ موسِم خراج مانگتا ہے
اِدھر یہ رنگ کہ ہر عکس آئینے سے خجِل
نہ دل میں زخم نہ آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک
جو کچھ نہیں تو یہی رسمِ روزگار سہی!
نہ ہو نصیب رگِ گُل تو نوکِ خار سہی
جو ہو سکے تو گریباں کے چاک سیِ لینا!
وگرنہ تُم بھی ہماری طرح سے جی لینا 


محسن - چراغِ شب کی طرح



ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اِتنی روشنی ہوگی
کہ جیسے تُند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے ، چمک کے کھو جائے
پھر اُس کے بعد کِسی کو نہ کُچھ سُجھائی دے
نہ شب کٹے نہ سُراغِ سحر دکھائی دے

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غُبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اِتنی راہ طے ہوگی
کہ جیسے تیز ہوائوں کی زد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھرے ، اُبھر کے مِٹ جائے
پھر اُس کے بعد نہ رستہ نہ راہگزر مِلے
حدِ نگاہ تلک دشتِ بے کنار مِلے

ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلہءِ دِل و جاں سے بِچھڑنے والے ہیں
بسے بسائے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانہء۔ ویراں اُجڑنے والے ہیں
ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا
ہماری عمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں


عالمتاب تشنہ - گنتی میں بے شمار تھے، کم کر دیے گئے



گنتی میں بے شمار تھے، کم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے
پہلے نصابِ عدل ہُوا ہم سے انتساب
پھر یوں ہُوا کہ قتل بھی ہم کر دیے گئے
پہلے لہو لہان کیا ہم کو شہر نے
پھر پیرہن ہمارے علَم کر دیے گئے
پہلے ہی کم تھی قریۂ جاناں میں روشنی
اور اس پہ کچھ چراغ بھی کم کر دیے گئے
اِس شہرِ نا شناس میں ہم سے عرب نژاد
لب کھولنے لگے تو عجم کر دیے گئے

محسن نقوی - کیسے ہیں؟



بول ہوا، اُس پار زمانے کیسے ہیں؟

اُجڑے شہر میں یار پُرانے کیسے ہیں؟

چاند اُترتا ہے اب کِس کِس آنگن میں؟
کِرنوں سے محروم گھرانے کیسے ہیں؟

لب بستہ دروازوں پر کیا بِیت گئ؟
گلیوں سے منسوب افسانے کیسے ہیں؟

جِن کی جُھرمٹ میں شامیں دَم توڑ گئیں
وہ پیارے ، پاگل پروانے کیسے ہیں؟

محسن ہم تو خیر خبر سے دَرگُزرے
اپنے روٹھے یار نجانے کیسے ہیں