اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

ساحر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ساحر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ساحر ۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

8/01/2015


ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ، یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ


تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے​

ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسواسے کہو
جبر کی حکمتِ پرکارکے ایماسے کہو
محملِ مجلسِ اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے ‘ دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہء تند ہے ‘خرمن پہ لپک سکتا ہے 


ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

ساحر ۔ کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے

6/06/2013


کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی
تو شاداب ہو بھی سکتی تھی 
یہ رنج و غم کی سیاہی جو دل پہ چھائی ہے 
تیری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی 
مگر یہ ہو نہ سکا
مگر یہ ہو نہ سکا، اور اب یہ عالم ہے 
کہ تو نہیں، تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں۔ 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
اِسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں 
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ 
مچل رہی ہے اندھیروں میں زندگی بھی 
انہی اندھیروں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر 
میں جانتا ہوں میرے ہم نفس 
مگر یوں ہی 

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم ہو کر 
تیرے جمال کی رعنائوں میں کھو رہتا 
تیرا گداز بدن تیری نیم باز آنکھیں 
انہی حسین فسانوں میں محو رہتا 
پکارتیں جب مجھے تلخیاں زمانے کی 
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ‌ پی لیتا 
حیات چیختی پھری برہنہ سر اور میں 
گھنیری زلفوں کے سائے میں‌ چھپ کے جی لیتا 
مگر یہ نہ ہو سکا اور اب یہ عالم ئے 
کہ تو نہیں ترا غم تری جستجو بھی نہیں 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں 
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں‌ گلے 
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے 
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں 
حیات و موت کے پر ہول خار زاروں سے 
نہ کوئ جدو منزل نہ روشنی کا سراغ 
بھٹک رہی ہے خلاؤں‌ میں زندگی میری 
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں کا کبھی کھو کر 
میں جانتا ہوں میری ہمنفس مگر یونہی
 
کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے 
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے 
تو اب سے پہلے ستاروں میاں بس رہی تھی کہیں 
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں 
یہ گیسوئوں کی غنی چھاؤں ہیں میری خاطر 
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کہ جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں 
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں 
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی 
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی 
میں جانتا ہوں تگ ہر ہے مگر یوں ہی 

کبھی کبھی میرے دل میں‌خیال آتا ہے 
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں 
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی 
یہ تیرگی جو میری زیست کا مقدر ہے 
تیری نظر کی شعاعوں‌میں‌کھو بھی سکتی تھی 
عجب نہ تھا کہ میں‌ بے گانہ الم ہو کر 
تیرے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا 
تیرا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں 
انہی حسین فسانوں میں‌محو ہو رہتا 
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی 
تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا 
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں 
گھنیری زلفوں کے سایہ میں‌چھپ کے جی لیتا
 
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے 
کہ تو نہیں‌تیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں 
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 
زمانے بھر کے دکھوں کا لگا چکا ہوں گلے 
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں‌ سے 
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں 
حیات و موت کے پرہول خارزاروں سے 
نہ کوئی جادہ منزل نہ روشنی کا چراغ 
بھٹک رہی ہے خلاؤں ‌میں ‌زندگی میری 
انہی خلاؤں میں‌ رہ جاؤں گا کبھی کھو کر 
میں‌ جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی 
کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے

ساحر - بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے

5/28/2013

بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے
گر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے

فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے

ساحرلدھیانوی - بہت دنوں سے ہے، یہ مشغلہ سیاست کا

4/14/2013

بہت دنوں سے ہے، یہ مشغلہ سیاست کا 
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں

بہت دنوں سے ہے یہ خبط حکمرانوں کا 
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں 

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے 
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں 

جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاوٴں سے 
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں 

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار 
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار 
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں 

ساحر - اے رہبر ملک و قوم بتا

3/22/2013


آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا 
کچھ ہم بھی سنیں ، ہم کو بھی بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

دھرتی کی سلگتی چھاتی کے بے چین شرارے پوچھتے ہیں 
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں 
سڑکوں کی زباں چلاتی ہے، ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں 

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

وہ کون سا جذبہ تھا جس سے فرسودہ نظام زیست ملا 
جھلسے ہوئے ویراں گلشن میں اک آس امید کا پھول کھلا 
جنتا کا لہو فوجوں سے ملا ، فوجوں کا لہو جنتا سے ملا 

اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 
اے رہبر ملک و قوم بتا 

کیا قوم وطن کی جے گا کر مرتے ہوئے راہی غنڈے تھے 
جو دیس کا پرچم لے کے اٹھے وہ شوخ سپاہی غنڈے تھے 
جو بار غلامی سہہ نہ سکے ، وہ مجرم شاہی غنڈے تھے 

یہ کس کا لہو ہے کون مرا 
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

اے عزم فنا دینے والو! پیغام بقا دینے والو 
اب آگ سے کیوں کتراتے ہو؟ شعلوں کو ہوا دینے والو 
طوفان سے اب ڈرتے کیوں ہو؟ موجوں کو صدا دینے والو 

کیا بھول گئے اپنا نعرہ 
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا 

سمجھوتے کی امید سہی، سرکار کے وعدے ٹھیک سہی 
ہاں مشق ستم افسانہ سہی، ہاں پیار کے وعدے ٹھیک سہی 
اپنوں کے کلیجے مت چھیدو اغیار کے وعدے ٹھیک سہی 

جمہور سے یوں دامن نہ چھڑا 
اے رہبر ملک و قوم بتا 
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

ساحر - یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟

3/19/2013

یہ   شاہراہیں  اسی   واسطے   بنی   تھیں  کیا؟
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے

زمیں نے کیا  اسی کارن اناج  اگلا تھا؟
کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے

ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی  ہیں؟
کہ  دختران  وطن  تار  تار  کو   ترسیں

چمن کو اس لئے مالی نے خون سے سینچا تھا؟
کہ  اس  کی  اپنی   نگاہیں  بہار   کو   ترسیں

ساحر - نور جہاں‌کے مزار پر

3/18/2013

پہلوئے شاہ میں‌یہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں‌ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں‌کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لئے
سالہاسال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لئے
سرخ محلوں ‌میں ‌جواں جسموں‌کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند، مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی ہیں تزینِ حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظلِ سبحان کی اُلفت کے بھرم کی خاطر

کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کرسکتی تھی بے لوث وفاؤں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ماتھوں‌کا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ

سہمی سہمی سی فضا میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے، فریاد کناں‌ ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ‌ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے

تو مری جاں! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں‌ کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے، ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں‌مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں

ساحر - طرب زادوں پہ کیا بیتی، صنم خانوں پہ کیا گُزری

 طرب زاروں پہ کیا بیتی، صنم خانوں پہ کیا گُزری
دلِ زندہ! ترے مرحوم اَرمانوں پہ کیا گُزری

زمیں نے خون اُگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گُزری

ہمیں یہ فکر، ان کی انجمن کس حال ہو گی!
انھیں یہ غم کہ اُن سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گُزری

مِرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اَب تک
مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں پہ کیا گُزری

یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پُوچھو شبستانوں پہ کیا گُزری

چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خُدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گُزری

ساحر - مادام

آپ بے وجہ پریشان سی کیوں‌ ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جٍلا
ہم جہاں‌ہیں وہاں‌ تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک، آداب کے سانچوں‌میں ڈھل نہیں‌سکتی

لوگ کہتے ہیں تو لوگوں ‌پہ تعجب کیسا؟
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں۔۔۔۔۔مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ بھی کہیئے غریبوں میں شرافت کیسی

نیک مادام! بہت جلد وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے
اپنی ذلت کی قسم، آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے میعار پرکھنے ہوں گے

ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے، لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں‌محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں‌کو حنا بخشی ہے

لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل؟
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں‌گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میں جہاں‌ہوں، وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے

ساحر - فرار

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے

اپنی بیکار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں میں
اپنی بےسود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے

میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میراماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں

میری امیدوں کا حاصل میری خواہش کا صلہ
اک بےنام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنی بیکار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر

کتنی بےربط تمناؤں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر

مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نا پوچھو
مجھکو کہنے دو میں نے انہیں چاھا ہی نہیں

اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں
میں نے ان مست نگاہوں کو سراہا بھی نہیں

مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی زندگی ناکام نہیں

ان کو اپنانے کی خواہش انہیں پانے کی طلب
شوق بیکار سہی سایہ غم انجام نہیں

وہ کنول جن کو کبھیی ان کے لئے کھلنا تھا
وہی گیسو وہی نظر وہی آرد وہی جسم

میں جو چاھوں کہ مجھے اور بھی مل سکتے ہیں
ان کی نظروں سے بہت دور بھی کھل سکتے ہیں

ساحر - حیات

حیات اک مستقل غم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید
خوشی  بھی  یاد  آتی ہے  تو  آنسو  بن  کے آتی  ہے

ساحر لدھیانوی - فرار: اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں

3/13/2013

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گُزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بےکار تمنائوں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود اُمیدوں پہ ندامت ہے مُجھے

میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میرا ماضی مییری ذلت کے سوا کُچھ بھی نہیں
میری اُمیدوں کا حاصل ، میری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنی بے کار اُمیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کِسی کی خاطر
کتنی بے ربط تمنائوں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کِسی کی خاطر

مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
مجھ کو کہنے دو کہ میں نے اُنھیں چاہا ہی نہیں
اور وہ مست نگاہیں جو مُجھے بھول گئیں
میں نے اُن مست نگاہوں کو سراہا ہی نہیں

مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی ، زندگی ناکام نہیں
اُن کو اپنانے کی خواہش ، اُنھیں پانے کی طلب
شوق بے کار سہی ، سعئِ غم انجام نہیں

وہی گیسو ، وہی نظریں ، وہی عارض ، وہی جسم
میں جو چاہوں تو مجھے اور بھی مِل سکتے ہیں
وہ کنول جو کبھی اُن کے لیے کھلنا تھے
اُن کی نظروں سے بہت دور بھی کِھل سکتےہیں

ساحر - یہ فصل گل کہ جسے نفرتوں نے سینچا ہے

2/23/2013

یہ فصل گل کہ جسے نفرتوں نے سینچا ہے
اگر پھلی تو شراروں کے پھول لائے گی

نہ پھل سکی تو نئ فصل گل کے آنے تک
ضمیر ارض میں اک زہر گھول جاۓ گی

ساحر - ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

چکلے

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
 کہاں ہیں؟ کہاں‌ ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ پرپیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

تعفن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح‌کمروں‌میں کھانسی کی ٹھن تھن
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں‌پر
یہ چاروں‌طرف بھیڑ سی کھڑکیوں‌پر
یہ آوازے کھنچتے ہوئے آنچلوں‌پر
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں‌کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں‌کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں ‌کی طرف
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں‌کی جانب
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی، ابا میاں‌ بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں‌ بھی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

ذرا ملک کے رہبروں‌کو بلاؤ
یہ کوچھے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوان تقدیس مشرق کو لاؤ
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں‌ہیں؟

ساحرلدہیانوی - تاج، تیرے لئے اک مظہرالفت ہی سہی

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں‌سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

مری محبوب پسِ پردہِ تشہیر وفا
توسطوت کےنشانوں کےمقابر سےبہلنےوالی
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

ساحر - طرب زاروں پر کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری


طرب زاروں پر کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری
دل زندہ ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری

زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی 
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری 

یہ منظر کون سا منظر ہے، پہچانا نہیں جاتا 
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری 

چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آگئے لیکن 
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری


ساحرلدہیانوی - نورجہاں کے مزار پر

سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں
سہمی ہوئی دوشیزاؤں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا، اس کارگہ زرداری میں
دو بھولی بھالی روحوں کی پہچان بھی بیچی جاتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی چھن جائے
ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا جب بھائی جنگ میں کام آئیں
سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے

ساحر لدہیانوی - ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

2/19/2010

یہ   بھوکی  نگاہیں  حسینوں   کی  جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے  ہوئے  پاؤں  زینوں  کی  جانب

ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

یہاں  پیر  بھی آ چکے  ہیں‌  جواں بھی
تنو مند   بیٹے   بھی ،  ابا    میاں   بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ماں بھی

ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

مدد  چاہتی  ہے  یہ  حوا  کی  بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر  کی  امت ،  زلیخا   کی  بیٹی

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

ذرا ملک  کے  رہبروں  کو   بلاؤ
یہ گلیاں، یہ کوچے یہ منظردکھاؤ
ثنا‌خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

ثنا‌خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟