اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

شکیل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شکیل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

شکیل بدایونی - اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

2/06/2013

اے  محبت   ترے  انجام    پہ   رونا   آیا
جانے کیوں  آج   ترے  نام   پہ   رونا   آیا

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
آج  کچھ  بات  ہے جو  شام  پہ  رونا  آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
مجھ  کو  اپنے  دل  ناکام   پہ  رونا   آیا

شکیل بدایونی - مرے ہم نفس مرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

مرے ہم نفس مرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں سوز عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دغا نہ دے

میں غم جہاں سے نڈھال ہوں میں سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خدا نہ دے

نہ یہ زندگی مری زندگی نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال وہم سے دور ہوں مجھے آج کوئی صدا نہ دے

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں مجھے ڈھونڈھتی ہیں مصیبتیں
مجھے خوف ہے کہ میرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

مرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے

وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیل کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی - تم نے یہ کیا ستم کیا ضبط سے کام لے لیا

تم نے یہ کیا ستم کیا ضبط سے کام لے لیا
ترک  وفا  کے  بعد بھی  میرا  سلام  لے لیا

ہائے یہ پیکر ہوس ہائے وہ خو گر قفس
بیچ کے جس نے آشیاں حلقہ دام لے لیا

شکیل بدایونی - جینا ہے تجھے جینے کے لئے اے دوست کسی عنوان سے پی

2/05/2013

جینا ہے تجھے جینے کے لئے اے دوست کسی عنوان سے پی
جینے کا  بہانہ  ایک  سہی  پینے  کے  بہانے  اور  بھی  ہیں

غنچوں کے چٹکنے پر ہی  نہ  ہوں مصروف  توجہ  اہل  چمن
کچھ نیم  شگفتہ  ہونٹوں  پر  خاموش  ترانے  اور  بھی  ہیں

ہر  تیر  نظر  کی  جنبش  میں  پاتا  ہوں  شکیل  انداز  جنوں
معدوم ہے اب تک جن کا نشاں کچھ ایسے نشانے اور بھی ہیں

شکیل بدایونی - غم عاشقی سے کہہ دو راہ عام تک نہ پہنچے

غم عاشقی سے کہہ دو راہ  عام  تک  نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت میرے نام تک نہ پہنچے

میں نظر سے پی رہا تھا کہ یہ دل نے بدعا دی
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی  جام  تک  نہ پہنچے

نئی صبح پر نظر ہے مگر  آہ  یہ  بھی  ڈر  ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

انھیں اپنے دل کی خبریں میرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو ان سے روٹھ جائوں تو  پیام  تک  نہ پہنچے

یہ  ادا  یہ  بے   نیازی   تجھے   بے   وفا   مبارک
مگر ایسی  بے  رخی  کیا  کہ  سلام  تک  نہ  پہنچے