مرے ہم نفس مرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں سوز عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دغا نہ دے
میں غم جہاں سے نڈھال ہوں میں سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خدا نہ دے
نہ یہ زندگی مری زندگی نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال وہم سے دور ہوں مجھے آج کوئی صدا نہ دے
مرے گھر سے دور ہیں راحتیں مجھے ڈھونڈھتی ہیں مصیبتیں
مجھے خوف ہے کہ میرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے
مرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیل کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے