اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

حسرت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حسرت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

میر ۔ روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

5/10/2015

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
 
حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام
 
اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
 
شیرینی نسیم ہے، سوز و گداز میرؔ
حسرت تیرے سخن پہ ہے لطف سخن تمام

حسرت - بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے

1/17/2014


بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا

سہل کہتا ہوں ممتنع حسرت
نغز گوئی مرا شعار نہیں

شعردراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

رکھتے ہیں عاشقان حسن سخن
لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض

اس شوخ کورسوا نہ کیا ہے نہ کریں گے
ہم نے کبھی ایسا نہ کیا ہے نہ کریں گے

غالب و مصحفی و میرو نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھا یا ہر استاد سے فیض

طرز مومن پہ مرحبا حسرت
تیری رنگین نگاریاں نہ گئیں

اردو میں کہاں ہے اور حسرت
یہ طرز نظیری و فغانی

سر کہیں ، بال کہیں ، ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو

حسرت ـ حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت


حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

بلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت میں وہ کیونکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں ' تو اکثر یاد آتے ہیں

حسرت ـ بڑھ گئیں تم سے تو مل کر او ر بھی بے تابیاں


بڑھ گئیں تم سے تو مل کر او ر بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

حسن بے پروا کو خو د بین و خودآرا کردیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

حسرت بہت بلند ہے مرتبہ عشق
تجھ کو تو مفت لوگوں نے بدنام کردیا

*****

دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا


حسرت ـ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے



چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یادہے


بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا
اور تیر ا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے 

با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق​
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے​

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا ​ 
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے​ 

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً​ 
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے​ 


جان کرسونا تجھے وہ قصد ِ پا بوسی مرا ​ 
اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے​ 

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ​
حال ِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے​ 

جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا​ 
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے​ 

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف​ 
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے​ 

آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر ِ فراق​ 
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے​ 

دوپہر کی دھوپ میں میرے بُلانے کے لیے​
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے​

آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز​
اپنا جانا یاد ہے،تیرا بلانا یاد ہے​

میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی​ 
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے​ 

دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے​ 
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے​ 

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ​ 
مدتیں گزریں،پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے​ 

شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا​ 
اور مِرا وہ چھیڑنا، گُدگدانا یاد ہے​ 

با وجودِ ادعائے اتّقا حسرت مجھے​ 
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانا یاد ہے​ 



حسرت ـ برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے


برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے 

یادبھی دل کو نہیں صبر و سکوں کی صورت 
جب سے اس ساعد سمیں کو کھلا دیکھا ہے 
**** 
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کردیا 

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں 
ہم یہ سمجھے تھے اب دل کو شکیبا کر دیا 
****
اک مرقع ہے حسن شوخ ترا
کشمکش ہائے نوجوانی کا 

کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت 
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا 
***** 
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمت انگریز نہ کرتے 

حسرت ـ لایا ہے دل پہ کتنی خرابی

لایا ہے دل پہ کتنی خرابی
اے یار تیرا حسن شرابی

پیراہن اس کا سادہ و رنگین
با عکس مئے سے شیشہ گلابی

پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں
کیفیت اس کی وہ نیم خوابی

حسرت - خرد کا نام جنوں پڑھ گیا ' جنوں کا خرد

10/29/2013


نگاہ_ یار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

خرد کا نام جنوں پڑھ گیا ' جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن_ کرشمہ ساز کرے

تیرے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

*****

ہجر میں پاس میر ے اور تو کیا رکھا ہے
اک تیرے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

حسرت - بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

3/02/2013


بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ اُلفت پر ، وہ کیوں کر یاد آتے ہیں

نہ چھیڑ اے ہم نشیں ، کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے ، مُجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد اُن کی ، مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں

حقیقت کُھل گئی حسرت ، ترے ترکِ محبّت کی
تُجھے تو اب وہ پہلے سے بھی ، بڑھ کر یاد آتے ہیں