(فیض کی ایک نظم جو انکے کسی بھی مجموعۂ کلام میں نہیں ہے)
مرغِ بسمل کی مانند شب تلملائی
افق تا افق
صبح کی پہلی کرن جگمگائی
تو تاریک آنکھوں سے
بوسیدہ پردے ہٹائے گئے
دل جلائے گئے
طبق در طبق
آسمانوں کے در
یوں کھلے ہفت افلاک آئینہ سا ہو گئے
شرق تا غرب سب قید خانوں کے در
آج وا ہو گئے
قصرِ جمہور کی طرحِ نَو کے لئے
آج نقشِ کہن سب مٹائے گئے
سینۂِ وقت سے سارے خونیں کفن
آج کے دن سلامت اٹھائے گئے
آج پائے غلاماں میں زنجیرِ پا
ایسے چھنکی کہ بانگِ درا بن گئی
دستِ مظلوم ہتھکڑی کی کڑی
سے چمکی کہ تیغِ فضا بن گئی
(ماسکو۔ 5 نومبر 1967)