تنہا
میں وہی قطرۂ بے بحر وہی دشت نورد
اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے صحرا کا طلسم
اپنے سینے میں چھپائے ہوئے سیلاب کا درد
ٹوٹ کر رشتۂ تسبیح سے آ نکلا ہوں
دل کی دھڑکن میں برستے ہوئے لمحوں کا خروش
میری پلکوں پہ بگولوں کی اڑائی ہوئی گرد
لاکھ لہروں سے اٹھا ہے مری فطرت کا خمیر
لاکھ قلزم مرے سینے میں رواں رہتے ہیں
دن کو کرنیں مرے افکار کا منہ دھوتی ہیں
شب کو تارے مری جانب نگراں رہتے ہیں
میرے ماتھے پہ جھلکتا ہے ندامت بن کر
ابنِ مریم کا وہ جلوہ جو کلیسا میں نہیں
راندۂ موج بھی مَیں، مجرمِ ذرات بھی مَیں
میرا قصہ کسی افسانۂ دریا میں نہیں
میری تاریخ کسی صفحۂ صحرا میں نہیں
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں