اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

ساغر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ساغر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ساغر ۔ اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

6/09/2016


دستور یہاں بھی گونگے ہیں ، فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ، ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

تقدیر  کے  کالے کمبل  میں ، عظمت  کے فسانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں ، عنوان یہاں بھی اندھے ہیں

زر دار  توقّع  رکھتا  ہے ، نادار  کی  گاڑھی  محنت  پہ
مزدور  یہاں بھی دیوانے ، ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں 

کچھ  لوگ  بھروسہ کرتے  ہیں ، تسبیح کے چلتے دانوں پر 
بے چین یہاں یزداں کا جنوں ، انسان یہاں بھی اندھے ہیں 

بے نام جفا کی راہوں پر ، کچھ خاک سی اڑتی دیکھی ہے 
حیران ہیں  دلوں کے آئینے ، نادان یہاں  بھی  اندھے ہیں 

بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں 
شاعر کا تصوّر  بھوکا  ہے ،سلطان یہاں  بھی  اندھے ہیں

ساغر ۔ جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

5/11/2016


برگشتۂ  یزداں  سے  کچھ  بھول  ہوئی  ہے
بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے

تا حّد نظر شعلے ہی شعلے  ہیں  چمن  میں
پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوئی ہے

جس  عہد میں لٹ  جائے  فقیروں  کی  کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے

ہنستے  ہیں  مری  صورت  مفتوں  پہ  شگوفے
میرے  دل ناداں  سے  کچھ  بھول  ہوئی  ہے

حوروں کی طلب اور مئے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد ، ترے  عرفاں  سے کچھ  بھول  ہوئی ہے

ساغر ۔ رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے


رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں 
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے 

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے 
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں 
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن 
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں 
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے 
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

ساغر ۔ ﻣَﯿﮟ ﺗﻠﺨﺌﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ


ﻣَﯿﮟ ﺗﻠﺨﺌﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﻏﻢ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﺍﺗﻨﯽ ﺩﻗﯿﻖ ﺷﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﮯ
ﯾﺰﺩﺍﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﭼَﮭﻠﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺎﻡ، ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﺯُﻟﻒِ ﯾﺎﺭ
ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﻣَﯿﮟ ﺁﺩﻣﯽ ﮨُﻮﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ
ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﮎ ﺩﺭﺩ ﻧﺎﮎ ﮔﯿﺖ
ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﯿﮟ ﺍِﻥ ﺳﮯ ﮔِﻠﮧ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ
ﭘُﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﺩﺍﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﺳﺎﻏﺮ ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﭘﯽ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﺣُﻀﻮﺭ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﺰﺍﺭﺷﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ

ساغر ۔ چراغِ طور جلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے

چراغِ طور جلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے 
ذرا نقاب اٹھاؤ ، بڑا اندھیرا ہے 

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے 
ابھی فریب نہ کھاؤ ، بڑا اندھیرا ہے 
     
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں 
انہیں کہیں   سے   بلاؤ ، بڑا   اندھیرا  ہے 
  
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری 
مجھے یقین دلاؤ  ،  بڑا اندھیرا   ہے 
  
بنامِ زہرہ   جبینانِ   خطۂ فردوس 
کسی کرن کو جگاؤ  ،  بڑا اندھیرا ہے

ساغرصدیقی​ : کوئی تازہ الم نہ دکھلائے

12/19/2014


آؤ بادہ کشوں کی بستی سے
کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں
میں فسانے تلاش کرتا ہوں
آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں


انقلابِ حیات کیا کہیے
آدمی ڈھل گئے مشینوں میں
میرے نغموں ک دل نہیں لگتا
ماہ پاروں میں، مہ جبینوں میں
جاؤ اہلِ خرد کی محفل میں
کیا کرو گے جنوں نشینوں میں


رہبروں کے ضمیر مجرم ہیں
ہر مسافر یہاں لٹیرا ہے
معبدوں کے چراغ گْل کر دو
قلب انساں میں اندھیرا ہے


جامِ عشرت کا ایک گھونٹ نہیں
تلخی آرزو کی مینا ہے
زندگی حادثوں کی دنیا میں
راہ بھولی ہوئی حسینہ ہے


نور و ظلمت کا احتساب نہ کر
وقت کا کارو بار سانجھا ہے
اس طلسمات کے جہاں میں حضور
کوئی کیدو ہے کوئی رانجھا ہے


وقت وارث کا صفحہء قرطاس
ہیر دنیا کا اجنبی قصہ
جھنگ سہتی کے مکر کی نگری
اور کیدو خیال کا حصہ


کوئی تازہ الم نہ دکھلائے
آنے والی خوشی سے ڈرتے ہیں
لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے
لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں


چند غزلوں کے روپ میں ساغر
پیش ہے زندگی کا شیرازہ


ساقیا تیرے بادہ خانے میں
نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں


اس منزلِ حیات سے گزرے ہیں اس طرح
جیسے کوئی غبار کسی کارواں کے ساتھ
 




ساغر صدیقی - ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

3/12/2013

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکےچہرے سے نقاب
حوصلہ  کرتے   ہیں  لیکن  حوصلہ  ہوتا  نہیں

شمع  جس  کی آبرو  پر جان  دے  دے جھوم کر
وہ   پتنگا  جل   تو  جاتا  ہے   فنا   ہوتا   نہیں

اب  تو  مدت  سے  رہ  و  رسمِ  نظارہ  بند  ہے
اب  تو  ان  کا  طُور  پر  بھی  سامنا  ہوتا  نہیں

ہر  شناور  کو  نہیں  ملتا   تلاطم    سے  خراج
ہر سفینے  کا  محافظ  ناخدا  ہوتا  نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں

بارہا دیکھا ہے ساغر رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں

ساغر صدیقی - جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

2/20/2010

جس دور میں  لٹ  جائے  فقیروں  کی  کمائی 
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے

اکتوبر1958ء میںپاکستان میںفوجی انقلاب میںمحمد ایوب بر سر اقتدار آگئے اور تمامسیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے، اس میں ایک مصرع تھا:

کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیںایوب ملا

یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہلاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اسشاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہنظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا!پولیس اور خفیہ پولیس اورنوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ ‍ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ‍ گچھ‍ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ‍ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہپان میں قوام ذرا زیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضورصدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:

بابا ہم فقیروں کاصدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو 
تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:

ارے صاحب، مجھےگورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نےگلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:

جس دور میں  لٹ  جائے  فقیروں  کی  کمائی 
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی بقلم خود)