اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گُزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بےکار تمنائوں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود اُمیدوں پہ ندامت ہے مُجھے
میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میرا ماضی مییری ذلت کے سوا کُچھ بھی نہیں
میری اُمیدوں کا حاصل ، میری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں
کتنی بے کار اُمیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کِسی کی خاطر
کتنی بے ربط تمنائوں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کِسی کی خاطر
مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
مجھ کو کہنے دو کہ میں نے اُنھیں چاہا ہی نہیں
اور وہ مست نگاہیں جو مُجھے بھول گئیں
میں نے اُن مست نگاہوں کو سراہا ہی نہیں
مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی ، زندگی ناکام نہیں
اُن کو اپنانے کی خواہش ، اُنھیں پانے کی طلب
شوق بے کار سہی ، سعئِ غم انجام نہیں
وہی گیسو ، وہی نظریں ، وہی عارض ، وہی جسم
میں جو چاہوں تو مجھے اور بھی مِل سکتے ہیں
وہ کنول جو کبھی اُن کے لیے کھلنا تھے
اُن کی نظروں سے بہت دور بھی کِھل سکتےہیں