اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

شورش - مصاحبین اور شاہ

1/04/2011

مصاحبینحضور ہم دس برس سے حاشیہ بردار اولٰی ہیں
عمومی شور و غل شہروں کی دیرینہ طبیعت ہے
سیاسی کھیل ہیں، شوریدہ سر ہلڑ مچاتے ہیں
انہیں لیڈر نچاتے ہیں
ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں
اگر ہم جیل بھجوائیں
تو اکثر تلملاتے ہیں
حضور! ہم خانہ زادِ سلطنت سجدے لٹاتے ہیں
شاہبکو مت چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو
یہاں کیا ہو رہا ہے، کون سا شیطان اٹھا ہے
جھروکے سے اُدھر دیکھو، یہ کیا طوفاں اٹھا ہے
دمادم، پے بہ پے ایوب مردہ باد کے نعرے؟
افق پر بے تحاشا جھملاتی شام کے تارے
گرجتے گونجتے الفاظ میں تقریر کے پارے
بکو مت، چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو
ایک اور مصاحب داخل ہو کر آداب بجا لاتا ہے
مصاحبامیر المومنین! بالی عمریا کا وزیر آیا
بہتر نشتروں میں ایک نشتر میر صاحب کا
بہ قول آنجہانی شیخ، چہرہ ماہتابی ہے
طبیعت آفتابی ہے
خدا جانے؟ سنا ہے
بچپنے ہی سے شرابی ہے
شاہبلا لاؤ، اکیلا ہے
کہ کوئی دوسرا بھی ہے؟
مصاحبجماعت کے بہت سے منچلے بھی ساتھ آئے ہیں
غزلہائے ہفت خواں کے ولولے بھی ساتھ آئے ہیں
جوانی ناگنوں کے رنگ میں آواز دیتی ہے
دل سد رہ نشیں کو طاقت پرواز دیتی ہے
بالی عمریا کا وزیر دربار میں داخل ہو کر قدم بوس ہوتا ہے
شاہچپڑ غٹو، الل ٹپو، نکھٹو، دًم کٹے ٹٹو
فضا لاہور کی ہنگامہ پرور ہوتی جاتی ہے
کہاں ہو؟ کس طرف ہو؟ دیکھتے کیا ہو میاں لٹو
جماعت کی صدارت اس لیے تم کو عطا کی ہے
عوام الناس بازاروں میں نعرہ باز ہو جائیں
سیاسی مسخرے اس دور کے شہباز ہوجائیں
ارے گھسیٹے، ارے بچھیے کے باوا
سوچتا کیا ہے؟
وزیرامیر المومنین!۔۔۔۔ ہم بندگانِ خاص کے آقا
ہم ایسے سینکڑوں سرکارِ عالی پر نچھاور ہیں
یقیں کیجیے، حریفوں کے مقابل میں دلاور ہیں
جری ہیں، جانتے ہیں بچپنے سے جاننے والے
کہ ہم ہیں آپکو ظلِ الٰہی ماننے والے
مرے قبلہ، مرے آقا، مرے مولا، مرے محسن
سوائے چند اوباشوں کے، ساری قوم خادم ہے
سیاسی نٹ کھٹوں کی گرم گفتاری پر نادم ہے
شاہبکو مت، چپ رہو، یہ ہم سمجھتے ہیں یہاں کیا ہے
وہ مودودی کے فتنے اور نصر اللہ کے شوشے
وہ پاکستان مسلم لیگ کے بھڑکے ہوئے گوشے
ڈیورنڈ روڈ کا وہ شاطرِ اعظم، معاذ اللہ
کوئی ٹکرائے اس شہباز سے، یہ تاب ہے کس میں؟
کوئی ایسا بھی ہے، یہ جوہرِ نایاب ہے کس میں؟
وہ کائیاں چودھری یعنی وزیراعظم سابق
پڑا ہے لٹھ لیے پیچھے مرے اور ضرب ہے کاری
تمہیں معلوم ہے عبد الولی خاں کی سیہ کاری؟
وہ بھٹو، جو مجھے کہتا تھا ڈیڈی، اب کہاں پر ہے
کہ سخت گفتنی نا گفتنی اس کی زباں پر ہے
وہ شورش جس نے بھوک ہڑتال سے لرزا دیا سب کو
تمہیں معلوم ہے بد بخت نے تڑپا دیا سب کو
قصوری اور شوکت کس لیے آزاد پھرتے ہیں
انہیں زنداں میں ڈلواؤ، دار پر کھنچواؤ، مرواؤ
ہمارا حکم ہے ان سب کے خنجر گھونپتے جاؤ
جسارت اس قدر؟ اب گالیاں دینے پہ اترے ہیں
سیاسی نٹ کھٹوں کے بیچ بازاریوں کے نخرے ہیں
کچھ دیر چپ رہنے کے بعد حکومت کی ایک رقاصہ سے
شاہاری نازک بدن، زہرہ ادا، گوہر صفت لیلٰی
ترے قربان، بوڑھی ہڈیوں میں جان آ جائے
رخِ زیبا پہ غازہ ہے مگر سی آئی اے کا ہے
کوئی داؤ بتا، یہ بے تکا طوفان تھم جائے
ہمارا پاؤں اکھڑا جا رہا ہے پھر سے جم جائے
بتا نور جہاں، نورِ نظر، رقاصۂ عالم
ہماری ذات اقدس سے عوام الناس ہیں برہم
رقاصہمرے آقا! اجازت ہو تو میری بات اتنی ہے
شریروں کی ہمارے ملک میں تعداد کتنی ہے؟
یہی دو چار مُلا، پانچ چھ لڑکے شریروں سے
پرانے گھاگ لیڈر، جیل خانے کے اسیروں میں
انہیں زہر اب دے کر گولیوں سے کیجیے ٹھنڈا
کہ شوریدہ سروں کی ڈار کا استاد ہے ڈنڈا
یہ سب گستاخ ہیں، ان کے لیے تعزیر واجب ہے
یہ سب غدار ہیں، ان کے لیے زنجیر واجب ہے
یہ سب بزدل مسافر موت کے ہیں، موت پائیں گے
کسی حیلے بہانے سے نہ ہر گز باز آئیں گے
شاہبہت اچھا، ہم اب ان کے لیے اعلان کرتے ہیں
بس ان کی ناگہانی موت کا سامان کرتے ہیں
مارچ کو ورق الٹ جاتا ہے
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں
الٹ ڈالا، عوام الناس سے فرعون کا تختہ
طنابیں ٹوٹتی ہیں، شاہ زادے تھر تھراتے ہیں
وہ گوہر جان نے لاہور کو رخت سفر باندھا
وہ رقاصہ نکل کے پہلوئے اغیار میں پہنچی
کٹی شب دختِ رز پیمانۂ افکار میں پہنچی
سیاسی ڈوم ڈھاری چل بسے، شورِ فغاں اٹھا
زمانے کی روش پر ایک سیلاب رواں اٹھا
بہت سی قمریوں سے باغبانوں کو ہلا ڈالا
کئی ذروں نے مل کر آسمانوں کو ہلا ڈالا
عوام الناس جاگ اٹھیں،تو ناممکن ہے سو جائیں
علی بابا کے چوروں کی زبانیں گنگ ہو جائیں

شورش کاشمیری - نعت رسول

ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم ---- صلی اللہ علیہ وسلم
تیرے ثنا خواں عالم عالم ---- صلی اللہ علیہ وسلم

ہم ہیں تیرے نام کے لیوا --- اے دھرتی کے پانی دیوا
یہ دھرتی ہے برہم برہم ---- صلی اللہ علیہ وسلم

تیری رسالت عالم عالم تیری --- نبوت خاتم خاتم
تیری جلالت پرچم پرچم ---- صلی اللہ علیہ وسلم

دیکھ تیری امت کی نبضیں --- دوب چکی ہیں ڈوب رہی ہیں
دھیرے دھیرے مدھم مدھم ---- صلی اللہ علیہ وسلم

دیکھ صدف سے موتی ٹپکے ---- دیکھ حیا کے ساغر جھلکے
سب کی آنکھیں پر نم پرنم ---- صلی اللہ علیہ وسلم

قریہ قریہ بستی بستی ---دیکھ مجھے میں دیکھ رہا ہوں
نوحہ نوحہ ماتم ماتم ---- صلی اللہ علیہ وسلم

اے آقا اے سب کے آقا --- ارض و سما ہیں زخمی زخمی
ان زخموں پہ مرحم مرحم --- صلی اللہ علیہ و سلم

شورش - یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟

یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟
مجھے کچھ سوچنے دےکوئی تیرا بھی خدا ہے؟
مجھے کچھ سوچنے دے
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
اَلفاظ کا جھگڑا ہیں ، بے جوڑ سراپا ہیں
بجتا ہوا ڈنکا ہیں ، ہر دیگ کا چمچا ہیں
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
مشہور صحافی ہیں ، عنوانِ معافی ہیں
شاہانہ قصیدوں کے، بے ربط قوافی ہیں
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
چلتے ہوئے لَٹّو ہیں ، بے ِزین کے ٹَٹّو ہیں
اُسلوبِ نگارش کے، منہ زور نِکھٹّو ہیں
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
یہ شکل یہ صورت ہے، سینوں میں کدورت ہے
آنکھوں میں حیا کیسی؟ پیسے کی ضرورت ہے
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
اپنا ہی بَھرم لے کر، اپنا ہی قلم لے کر
کہتے ہیں …کہ لکھتے ہیں ، انسان کا غم لے کر
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
تابع ہیں وزیروں کے، خادم ہیں امیروں کے 
قاتل ہیں اَسیروں کے، دشمن ہیں فقیروں کے
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
اَوصاف سے عاری ہیں ، نُوری ہیں نہ ناری ہیں
طاقت کے پُجاری ہیں ، لفظوں کے مداری ہیں
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
تصویرِ زمانہ ہیں ، بے رنگ فسانہ ہیں
پیشہ ہی کچھ ایسا ہے، ہر اِک کا نشانہ ہیں
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
رَہ رَہ کے ابھرتے ہیں ، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
کہنے کی جو باتیں ہیں ، کہتے ہوئے ڈرتے ہیں
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟
بے تیغ و سناں جائیں ، باآہ و فغاں جائیں
اس سوچ میں غلطاں ہیں ، جائیں تو کہاں جائیں ؟

شورش کاشمیری - دُعائے نِیم شَبی

زورِ   بیان  و  قوّتِ    اظہار    چھین    لے
مجھ سے مِرے خدا، مرِے افکار چھین لے

کچھ بِجلیاں اُتار، قضا کے لباس میں
تاج و کُلاہ و جبّہ و دستار چھین لے

عِفّت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر
نظّارہ   ہائے  گیسو   و   رُخسار   چھین   لے

شاہوں کو اُن کے غرّۂِ بے جا کی دے سزا
محلوں سے اُن کی رفعتِ کہسار چھین لے

میں اور پڑھوں قصیدۂ اربابِ اقتدار
میرے قلم سے جُرأتِ رفتار چھین لے

اربابِ اختیار   کی   جاگیر   ضبط   کر
یا غم زدوں سے نعرۂ پَیکار چھین لے

شورش - ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب   سیاست   کا   صلہ  آہنی  زنجیریں تھیں

سرفروشوں کے لئے دار  و   رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں

بے گناہوں کا لہو عام  تھا  بازاروں  میں 
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں

از افق تا   بہ   افق   خوف   کا   سناٹا   تھا 
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں

جانشینیان کلایو  تھے  خداوند  مجاز 
سِرِّ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں

حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے 
اور  زنداں  کے   سزاوار   فقط  ہم   ٹھہرے

شورش - سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں

یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟
مجھے کچھ سوچنے دے

سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اَولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا 

جس نے سَادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں 
جس نے لَختِ دلِ حیدر کو تڑپتا دیکھا 

برسرِ عام سکینہ کی نقابیں اُلٹیں 
لشکر ِ حیدرِ کرار کو لُٹتا دیکھا 

اُمِ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے 
شام میں زینب وصُغرٰیٰ کا تماشا دیکھا 

شہِ کونین کی بیٹی کا جگر چاک کیا 
سِبطِ پیغمبرِ اسلام کا لاشا دیکھا 

دیدۂ قاسم و عباس کے آنسو لُوٹے 
قلب پر عابدِ بیمار کے چَرکا دیکھا 

توڑ کر اصغر و اکبر کی رگوں پر خنجر 
جورِ دوراں کا بہیمانہ تماشا دیکھا 

بھائی کی نعش سے ہمشیر لِپٹ کر روئی 
فوج کے سامنے شبیر کو تنہا دیکھا 

پھاڑ کر گُنبدِخضریٰ کے مکیں کا پرچم 
عرش سے فرش تلک حَشر کا نَقشا دیکھا 

قلبِ اسلام میں صَدمات کے خنجر بھونکے 
کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا 

اُبوسفیان کے پوتے کی غلامی کر لی 
خود فروشوں کو دِنائت سے پنپتا دیکھا 

اے مری قوم ترے حُسنِ کمالات کی خیر 
تُو نے جو کچھ بھی دکھایا وُہی نقشہ دیکھا 

کوئی تیرا بھی خدا ہے؟
مجھے کچھ سوچنے دے