اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

حسرت - بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے

1/17/2014


بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا

سہل کہتا ہوں ممتنع حسرت
نغز گوئی مرا شعار نہیں

شعردراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

رکھتے ہیں عاشقان حسن سخن
لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض

اس شوخ کورسوا نہ کیا ہے نہ کریں گے
ہم نے کبھی ایسا نہ کیا ہے نہ کریں گے

غالب و مصحفی و میرو نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھا یا ہر استاد سے فیض

طرز مومن پہ مرحبا حسرت
تیری رنگین نگاریاں نہ گئیں

اردو میں کہاں ہے اور حسرت
یہ طرز نظیری و فغانی

سر کہیں ، بال کہیں ، ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو

حسرت ـ حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت


حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

بلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت میں وہ کیونکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں ' تو اکثر یاد آتے ہیں

حسرت ـ بڑھ گئیں تم سے تو مل کر او ر بھی بے تابیاں


بڑھ گئیں تم سے تو مل کر او ر بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

حسن بے پروا کو خو د بین و خودآرا کردیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

حسرت بہت بلند ہے مرتبہ عشق
تجھ کو تو مفت لوگوں نے بدنام کردیا

*****

دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا


گوگوش ـ من آمده ام واي واي ، من آمده ام


من آمده ام واي واي ، من آمده ام 
عشق فرياد كند 

اي دلبر من الهي صد ساله شوي 
در پهلوي ما نشسته همسايه شوي 
همسايه شوي كه دست به ما سايه كني 
شايد كه نصيب من بيچاره شوي 

من آمده ام واي واي، من آمده ام 
عشق فرياد كند 

من آمده ام كه ناز بنياد كند من آمده ام 
عشق آمد و خيمه زد به صحراي دلم 
زنجير وفا فكنده در پاي دلم 

عشق اگر به فرياد دل ما نرسد 
اي واي دلم واي دلم واي دلم 
من آمده ام واي واي من آمده ام 
عشق فرياد كند 

من آمده ام كه ناز بنياد كند من آمده ام 
بيا كه برويم از اين ولايت من و تو 
تو دست منو بگير و من دامن تو 
جايي برسيم كه هر دو بيمار شويم 
تو از غم بي كسي و من از غم تو 

من آمده ام واي واي ، من آمده ام 
عشق فرياد كند 

حسرت ـ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے



چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یادہے


بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا
اور تیر ا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے 

با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق​
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے​

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا ​ 
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے​ 

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً​ 
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے​ 


جان کرسونا تجھے وہ قصد ِ پا بوسی مرا ​ 
اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے​ 

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ​
حال ِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے​ 

جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا​ 
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے​ 

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف​ 
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے​ 

آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر ِ فراق​ 
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے​ 

دوپہر کی دھوپ میں میرے بُلانے کے لیے​
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے​

آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز​
اپنا جانا یاد ہے،تیرا بلانا یاد ہے​

میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی​ 
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے​ 

دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے​ 
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے​ 

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ​ 
مدتیں گزریں،پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے​ 

شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا​ 
اور مِرا وہ چھیڑنا، گُدگدانا یاد ہے​ 

با وجودِ ادعائے اتّقا حسرت مجھے​ 
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانا یاد ہے​ 



حسرت ـ برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے


برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے 

یادبھی دل کو نہیں صبر و سکوں کی صورت 
جب سے اس ساعد سمیں کو کھلا دیکھا ہے 
**** 
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کردیا 

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں 
ہم یہ سمجھے تھے اب دل کو شکیبا کر دیا 
****
اک مرقع ہے حسن شوخ ترا
کشمکش ہائے نوجوانی کا 

کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت 
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا 
***** 
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمت انگریز نہ کرتے 

حسرت ـ لایا ہے دل پہ کتنی خرابی

لایا ہے دل پہ کتنی خرابی
اے یار تیرا حسن شرابی

پیراہن اس کا سادہ و رنگین
با عکس مئے سے شیشہ گلابی

پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں
کیفیت اس کی وہ نیم خوابی