دستور یہاں بھی گونگے ہیں ، فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ، ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں ، عظمت کے فسانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں ، عنوان یہاں بھی اندھے ہیں
زر دار توقّع رکھتا ہے ، نادار کی گاڑھی محنت پہ
مزدور یہاں بھی دیوانے ، ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں
کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں ، تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں ، انسان یہاں بھی اندھے ہیں
بے نام جفا کی راہوں پر ، کچھ خاک سی اڑتی دیکھی ہے
حیران ہیں دلوں کے آئینے ، نادان یہاں بھی اندھے ہیں
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ہے ،سلطان یہاں بھی اندھے ہیں