اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

محسن لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
محسن لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

محسن : ​ہر ايک زخم کا چہرہ گلا جيسا ہے

12/17/2014

ہر  ايک  زخم  کا  چہرہ  گلا  جيسا  ہے
مگر يہ جاگتا منظر بھی خواب جيسا ہے
يہ تلخ تلخ سا لہجہ ،  يہ تيز تيز سی بات
مزاج  يار   کا   عالم   شراب   جيسا   ہے
مرا سخن بھی چمن در چمن شفق کي پھوار
ترا  بدن   بھی  مہکتے  گلاب   جيسا   ہے
بڑا  طويل ،  نہايت  حسيں ،  بہت  مبہم
مرا  سوال  تمہارے   جواب   جيسا   ہے
تو زندگی کےحقائق کی تہہ ميں يوں نہ اتر
کہ  اس  ندی  کا  بہاؤ  چناب  جيسا   ہے
 
تری  نظر   ہی   نہيں   حرف   آشنا   ورنہ
ہر  ايک  چہرہ  يہاں  پر  کتاب  جيسا  ہے
چمک اٹھے تو سمندر، بجھے تو ريت کي لہر
مرے   خيال   کا   دريا   سراب   جيسا   ہے
ترے قريب  بھی  رہ  کر نہ پا سکوں تجھ کو
ترے   خيال   کا   جلوہ   حباب   جيسا   ہے

محسن : ​چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کي لکير تھي


چاہت کا رنگ تھا نہ وفا  کی لکير تھی
قاتل کے ہاتھ ميں تو حنا کی لکير تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
ميرے لبوں پہ  حرف  دعا  کی  لکير  تھی
ميں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ريت پر وہ ہوا کی لکير تھی
سورج کو جس نے شب کے اندھيروں ميں گم کيا
موج  شفق  نہ  تھی   وہ   قضا   کی   لکير   تھی
گزرا ہے سب کو دشت سے شايد وہ پردہ دار
ہر نقش  پا  کے  ساتھ  ردا  کی   لکير   تھی
کل اس کا خط ملا کہ صحيفہ وفا کا تھا
محسن ہر ايک سطر حيا کی لکير  تھی

محسن : ​اتني مدت بعد ملے ہو

اتني مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں ميں گم پھرتے ہو
اتنے خائف کيوں رہتے ہو؟
ہر آہٹ سے ڈر جا تے ہو
تيز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ريت پہ کيا لکھتے رہتے ہو؟
کاش کوئی ہم سے بھي پوچھے
رات گئے تک کيوں جاگے ہو؟
 
ميں دريا سے بھي ڈرتا ہوں
تم دريا سے بھي گہرے ہو
کون سي بات ہے تم ميں ايسي
اتنے اچھے کيوں لگتے ہو؟
پچھے مڑ کر کيوں ديکھتا تھا
پتھر بن کر کيا تکتے ہو
جاؤ جيت کا جشن مناؤ
ميں جھوٹا ہوں، تم سچے ہو
اپنے شہر کے سب لوگوں سے
ميري خاطر کيوں الجھے ہو؟
 
کہنے کو رہتے ہو دل ميں
پھر بھي کتنے دور کھڑے ہو
رات بہت ہي ياد آئے ہو
 
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپني کہو اب تم کيسے ہو؟
 
محسن تم بدنام بہت ھو
جيسے ہو، پھر بھي اچھے ہو

محسن نقوی : چہرے پڑھتا، آنکھيں لکھتا رہتا ہوں

چہرے پڑھتا، آنکھيں لکھتا رہتا ہوں
ميں بھی کيسی باتيں لکھتا رہتا ہوں؟
سارے جسم درختوں جيسے لگتے ہيں
اور بانہوں کو شاخيں لکھتا رہتا ہوں
مجھ کو خط لکھنے کے تيور بھول گئے
آڑی  ترچھی  سطريں  لکھتا  رہتا  ہوں
تيرے ہجر ميں اور مجھے کيا کرنا ہے؟
تيرے  نام  کتابيں  لکھتا  رہتا  ہوں
تيری زلف کے سائے دھيان ميں رہتے ہيں
ميں صبحوں کی شاميں لکھتا  رہتا  ہوں
 
اپنے پيار  کی  پھول  مہکتی  راہوں ميں
لوگوں  کی   ديواريں   لکھتا   رہتا  ہوں
تجھ سے مل کر سارے دکھ  دہراؤں  گا
ہجر  کی  ساری  باتيں  لکھتا  رہتا ہوں
 
سوکھے پھول، کتابيں، زخم جدائی  کے
تيری  سب  سوغاتيں  لکھتا  رہتا ہوں
اس کي بھيگی پلکيں ہنستی رہتی ہيں
محسن جب تک غزليں لکھتا رہتا ہوں

محسن : ​ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد

ہجومِ  شہر  سے ہٹ کر ، حدودِ شہر کے بعد
وہ مسکرا کے ملے بھی تو  کون  ديکھتا  ہے؟
 
جس آنکھ ميں کوئی چہرہ نہ کوئی عکس طلب
وہ آنکھ جل کے بجھے بھی تو کون ديکھتا ہے؟
 
ہجومِ  درد  ميں  کيا   مسکرايئے   کہ   يہاں
خزاں ميں پھول کھلے بھی تو کون ديکھتا ہے؟
 
ملے بغير جو مجھ سے بچھڑ  گيا  محسن
وہ راستے ميں رکے بھی تو کون ديکھتا ھے؟

محسن : ​ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے

ہوا  کا  لمس جو  اپنے کواڑ  کھولتا  ہے
تو دير تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے
 
ہم ايسے خاک نشيں کب لبھا سکيں گے اسے
وہ اپنا  عکس  بھی  ميزان  زر  ميں  تولتا  ہے
جو ہو سکے تو يہی  رات اوڑھ لے تن پر
بجھا چراغ اندھرے ميں کيوں ٹٹولتا ہے؟
اسی سے مانگ لو خيرات اس کے خوابوں کی
وہ جاگتی ہوئی آنکھوں ميں نيند کھولتا ہے
سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن
کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے

محسن : تازگی کیلئے محسن نقوی کے دواشعار


ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
 
مجھ کوبھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کرچلنے کی عادت اسے بھی تھی

محسن : ​آہٹ سي ہوئي تھي نہ کوئي برگ ہلا تھا

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا
ميں خود  ہی سرِ منزل  شب  چيخ  پڑا
لمحوں کی فصيليں بھی مرے گرد کھڑی تھيں
ميں پھر بھی تجھے  شہر  ميں  آوارہ  لگا  تھا
 
تونے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ
ميں فکر کی دہليز پہ چپ چاپ کھڑا تھا
پھيلی تھيں بھرے شہر ميں تنہائی کی باتيں
شايد  کوئی  ديوار  کے  پيچھے  بھی کھڑا تھا
اب اس کے سوا  ياد نہيں جشنِ ملاقات
اک ماتمی جگنو مری پلکوں پہ سجا تھا
 
يا بارشِ سنگ ، اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی
يا  پھر ميں  ترے  شہر کی  راہ بھول گيا تھا
 
ويران نہ ہو اس درجہ کوئی موسم گل بھی
کہتے ہيں کسی شاخ پہ اک پھول کھلا تھا
اک تو کہ گريزاں ہی رھا  مجھ  سے بہر طور
اک  ميں  کہ  ترے  نقش  قدم  چوم  رہا  تھا
 
ديکھا  نہ  کسی  نے  بھی  مری  سمت  پلٹ کر
محسن ميں بکھرتے ہوئے شيشوں کی صدا تھا

محسن: اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

12/16/2014

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
 
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
 
سرخیان امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حروف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
 
جس کی چوٹی پہ بسایا تھا قبیلہ میں نے
زلزلے جاگ پڑے ہیں اُسی کہسار کے بیچ
 
کاش اس خواب کو تعبیر کہ مہلت نہ ملے
شعلے اگلتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
 
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف ِ اشجار کے بیچ
 
رزق، ملبوس، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ
 
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اُسے اغیار کے بیچ

 

محسن: اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا

 
اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
 
پلکوں پہ آ کے رک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا
 
شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا
 
آ کر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئ
الزام احتیاطِ گریباں کے سر گیا
 
زنجیرِ ماتمی ہے تم اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دِوانہ تو مر گیا

محسن: جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی

 
جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
مدتوں اپنے بدن سے تیری خوشبو آئی
 
میرے مکتوب کی تقدیر کے اشکوں سے دھُلا
میری آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئی
 
اپنے سینے پہ لِیئے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ
اب تو ان راہ گزاروں میں میری خو آئی
 
یوں امڈ آئی کوئی یاد میری آنکھوں میں
چاندنی جیسے نہانے کو لبِ جو آئی
 
ہاں، نمازوں کا اثر دیکھ لیا پچھلی رات
میں ادھر گھر سے گیا تھا کہ ادھر تو آئی
 
مژدہ اے دل کسی پہلو تو قرار آ ہی گیا
منزِلِ دار کٹی ساعتِ گیسو آئی

محسن: میرے قاتل کو پکارو کے میں زندہ ہوں ابھی

 
میرے قاتل کو پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
پھر سے مقتل کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
یہ شب ہجر تو ساتھی ہے میری برسوں سے 
جاؤ سو جاؤ ستارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
یہ پریشان سے گیسو دیکھے نہیں جاتے 
اپنی زلفوں کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
لاکھ موجوں میں گھرا ہوں ، ابھی ڈوبا تو نہیں 
مجھ کو ساحل سے پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 
 
قبر سے آج بھی محسن کی آتی ہے صدا 
تم کہاں ہو میرے یارو کہ میں زندہ ہوں ابھی 

محسن نقوی ـ ​آہٹ سي ہوئي تھي نہ کوئي برگ ہلا تھا

3/14/2014


آہٹ سي ہوئي تھي نہ کوئي برگ ہلا تھا
ميں خود ہي سرِ منزل، شب چيخ پڑا تھا

لمحوں کي فصيليں بھي مرے گرد کھڑي تھيں
ميں پھر بھي تجھے شہر ميں آوارہ لگا تھا

تونے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ
ميں فکر کي دہليز پہ چپ چاپ کھڑا تھا

پھيلي تھيں بھرے شہر ميں تنہائي کي باتيں
شايد کوئي ديوار کے پيچھے بھي کھڑا تھا

اب اس کے سوا ياد نہيں جشن ملاقات
اک ماتمي جگنو مري پلکوں پہ سجا تھا

يا بارش سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئي تھي
يا پھر ميں ترے شہر کي راہ بھول گيا تھا

ويران نہ ہو اس درجہ کوئي موسم گل بھي
کہتے ہيں کسي شاخ پہ اک پھول کھلا تھا

اک تو کہ گريزاں ہي رھا مجھ سے بہر طور
اک ميں کہ ترے نقش قدم چوم رہا تھا

ديکھا نہ کسي نے بھي مري سمت پلٹ کر
محسن ميں بکھرتے ہوئے شيشوں کي صدا تھا

محسن نقوی - اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

3/05/2014


قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ

سرخیان امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حروف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ

جس کی چوٹی پہ بسایا تھا قبیلہ میں نے
زلزلے جاگ پڑے ہیں اُسی کہسار کے بیچ

کاش اس خواب کو تعبیر کہ مہلت نہ ملے
شعلے اگلتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف ِ اشجار کے بیچ

رزق، ملبوس، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اُسے اغیار کے بیچ



محسن نقوی - ہمارا کیا ہے؟

3/02/2013



ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح

اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہوگی!
کہ جیسے تُند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے چمک کے کھو جائے
پھر اِس کے بعد کسی کو نہ کچھ سُجھائی دے
نہ شب کٹے نہ سُراغ سحر دکھائی دے!
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اِتنی راہ طَے ہوگی!

کہ جیسے تیز ہواؤں کی زد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھر کے مِٹ جائے
پھر اِس کے بعد نہ منزل نہ رہگذار ملے!
حدِ نگاہِ تلک دشتِ بے کنار ملے!!
ہماری سَمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلئہ دِل و جاں سے بچھڑنے والے ہیں
بسے بسائے ہوُئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانۂ ویراں اُجڑنے والے ہیں

اَب اِس کے بعد یہ ہو گا کہ تُم پہ ہونا ہے
ورُودِ نعمت عُظمٰے ہو یا نزولِ عذاب!
تُمہی پہ قرض رہے گی تمہارے فرض میں ہے
دِلوں کی زخم شُماری غمِ جہاں کا حِساب
گناہِ وصل کی لذّت کہ ہجرتوں کا ثواب؟
تمام نقش تمہی کو سنوارنا ہوں گے!
رگوں میں ضبط کے نشتر اُتارنا ہوں گے!
اب اِس طرح ہے کہ گذرے دنوں کے ورثے میں
تمہاری نذر ہیں ٹکڑے شکستہ خوابوں کے
جلے ہوئے کئی خیمے دریدہ پیراہن
بُجھے چراغ لہو انگلیاں فگار بدن
یتیم لفظ ردا سوختہ انا کی تھکن
تُمہیں یہ زخم تو آنکھوں میں گھولنا ہوں گے
عذاب اور بھی پلکوں پہ تولنا ہوں گے

جو یوُں نہیں تو چلو اب کے اپنے دامن پر
بہ فیضِ کم نظری داغ بے شُمار سہی!
اُدھر یہ حل کہ موسِم خراج مانگتا ہے
اِدھر یہ رنگ کہ ہر عکس آئینے سے خجِل
نہ دل میں زخم نہ آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک
جو کچھ نہیں تو یہی رسمِ روزگار سہی!
نہ ہو نصیب رگِ گُل تو نوکِ خار سہی
جو ہو سکے تو گریباں کے چاک سیِ لینا!
وگرنہ تُم بھی ہماری طرح سے جی لینا 


محسن - چراغِ شب کی طرح



ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اِتنی روشنی ہوگی
کہ جیسے تُند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے ، چمک کے کھو جائے
پھر اُس کے بعد کِسی کو نہ کُچھ سُجھائی دے
نہ شب کٹے نہ سُراغِ سحر دکھائی دے

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غُبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اِتنی راہ طے ہوگی
کہ جیسے تیز ہوائوں کی زد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھرے ، اُبھر کے مِٹ جائے
پھر اُس کے بعد نہ رستہ نہ راہگزر مِلے
حدِ نگاہ تلک دشتِ بے کنار مِلے

ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلہءِ دِل و جاں سے بِچھڑنے والے ہیں
بسے بسائے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانہء۔ ویراں اُجڑنے والے ہیں
ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا
ہماری عمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں


محسن نقوی - کیسے ہیں؟



بول ہوا، اُس پار زمانے کیسے ہیں؟

اُجڑے شہر میں یار پُرانے کیسے ہیں؟

چاند اُترتا ہے اب کِس کِس آنگن میں؟
کِرنوں سے محروم گھرانے کیسے ہیں؟

لب بستہ دروازوں پر کیا بِیت گئ؟
گلیوں سے منسوب افسانے کیسے ہیں؟

جِن کی جُھرمٹ میں شامیں دَم توڑ گئیں
وہ پیارے ، پاگل پروانے کیسے ہیں؟

محسن ہم تو خیر خبر سے دَرگُزرے
اپنے روٹھے یار نجانے کیسے ہیں