اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

ظفر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ظفر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا

1/27/2014

نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں، کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غم  عشق  تو  اپنا  رفیق  رہا  کوئی  اور  بلا  سے  رہا نہ رہا

دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشین کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی  اپنی  برائیوں  پر  جو  نظر،  تو  نگاہ  میں  کوئی  برا  نہ  رہا

تیرے ُرخ  کے خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ  پہ نہ  فتنہ  روز  جزا
تیری زلف کے دھیان میں کون سی شب میرے سر پہ ہجوم  بلا  نہ رہا

ہمیں ساغرِ بادہ کے دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غصب
کہ یہ عہدِ نشاط یہ دورِطرب، نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا

کئی روز میں آج و مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما
مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا

تیر خنجر و تیخ کی آب رواں ہوئی جبکہ سبیل ستمزدگاں
گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنہ آب بقا نہ رہا

مجھے صاف بتائے نگار اگر تو یہ پوچھوں میں رو رو کے خون جگر
ملے پاؤں سے کس کے ہیں دیدہ تر کف پا جو رنگ حنا نہ رہا

اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کیے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا

لگے یوں تو ہزاروں تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم
ولے ناز و کرشمہ کی تیخ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جیسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جیسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

ظفر ـ لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں

5/28/2013


لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں 
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں 

کہہ دوان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں 
اتنی جگہ کہاں‌ ہے دل داغدار میں 

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن 
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

اتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیئے 
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

ظفر ـ جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر


خامشی اچھی نہیں ، انکار ہونا چاہیئے
اور یہ تماشہ اب سر بازار ہونا چاہیئے

خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی 
پہلے انہیں خواب سے بیدار ہونا چاہیئے 

اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات 
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہیئے 

بات پوری ہے ادھوری چاہیئے اے جان جاناں 
کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہیئے 

دوستی کے نام پر کیجیئے نہ کیونکر دشمنی 
کچھ نہ کچھ آخر طریقہ کار ہونا چاہیئے 

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر 
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے