ہم مسافر یونہی مصروف سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر، تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تیری یاد سے جس روز اُتر جائیں گے
جوہری بند کیئے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گُہر جائیں گے
نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں, مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا، مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو، ہم تو گزر جائیں گے