کتنے جانسوز مراحل سے گزر کر دل نے
کس قدر سلسلۂ سود و زیاں دیکھے ہیں
ڈوبتی رات کے سہمے ہوئے کتنے تارے
جھومتی صبح کے آنچل میں یہاں دیکھے ہیں
ٹوٹتے ساز بکھرتے ہوئے نغموں کے قریب
چوٹ کھائی ہوئی قسمت کے نشاں دیکھے ہیں
جس سیاست کو تھا بیمار تفکّر سے عناد
اس کی قدروں میں تضادوں کے بیاں دیکھے ہیں
موت کو جس کے تصوّر سے پسینہ آ جائے
زیست کے دوش پہ وہ بار گراں دیکھے ہیں
وقت کے تند سمندر میں ہر اک دھارے نے
کتنے خنجر مری گردن پہ رواں دیکھے ہیں
پھر بھی اے حسن جنوں، کیف جنوں، جوش جنوں
کب مہ و سال نے یہ عزم جواں دیکھے ہیں
سابقہ کس سے پڑا ہے ابھی طوفانوں کو
ہاں ابھی موت نے انسان کہاں دیکھے ہیں
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں