نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں، کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشین کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
تیرے ُرخ کے خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ پہ نہ فتنہ روز جزا
تیری زلف کے دھیان میں کون سی شب میرے سر پہ ہجوم بلا نہ رہا
ہمیں ساغرِ بادہ کے دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غصب
کہ یہ عہدِ نشاط یہ دورِطرب، نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا
کئی روز میں آج و مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما
مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا
تیر خنجر و تیخ کی آب رواں ہوئی جبکہ سبیل ستمزدگاں
گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنہ آب بقا نہ رہا
مجھے صاف بتائے نگار اگر تو یہ پوچھوں میں رو رو کے خون جگر
ملے پاؤں سے کس کے ہیں دیدہ تر کف پا جو رنگ حنا نہ رہا
اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کیے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا
لگے یوں تو ہزاروں تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم
ولے ناز و کرشمہ کی تیخ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جیسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جیسے طیش میں خوف خدا نہ رہا