اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

فراز اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں

9/03/2014

 
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ

جیسے دو شخص تمّنا کے سرابوں میں ملیں


فراز مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے

محاصرہ

 
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے
فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اُس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
 
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
 
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کجکلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت بھی حلف اٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
 
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثناگر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اِک مصاحبِ دربار کے اشارے پر
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
 
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے پاس ہے کون آس پاس تو دیکھو
 
سو یہ شرط ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
 
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کِسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اِک نیا سورج تراش لاتی ہے
 
سو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لئے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اُسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اُسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ

مرا قلم نہیں کردار اُس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کِسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

مرا قلم نہیں اس نقب زن کا دستِ ہوس
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دُزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اُچھالتا ہے

مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلّغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کا
جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تِیر کی ہے

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عُمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

سرشتِ عشق نے افتادگی نہیں پائی
!تو قدِ سرو نہ بینی و سایہ پیمائی

فراز: سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں


سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں


سو اُس کے شہر میں کُچھ دِن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رَبط ہے اُس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی


سو ہم بھی اُس کی گلی سے گُزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ہُنر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں


یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں


سُنا ہے اُس کو ہِرن دَشت بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے دِن کو اُسے تِتلیاں ستاتی ہیں

سُنا ہے رات کو جُگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی


سُنا ہے شام کو سائے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کی سیہ چشمگی قیامت ہے

سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے لبوں پہ گُلاب جلتے ہیں


سو ہم بہار پہ اِلزام دھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی

جو سادہ دِل ہیں اُسے بَن سنور کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے جب سے حمائل ہیں اُس کی گردن میں


مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کَتر کے دیکھتے ہیں

بس اِک نِگاہ سے لُٹتا ہے کافلہ دِل کا


سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں اُدھر کی بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں


چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کِسے نصیب کہ بے پیراہن اُسے دیکھے

کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی ، سب مُبالغے ہی سہی


اگر وہ خواب ہے ، تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں کہ کُوچ کر جائیں

فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں