اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

فیض لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فیض لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فیض ـ ہم مسافر یونہی مصروف سفر جائیں گے

7/01/2015


ہم مسافر یونہی مصروف سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر، تو گھر جائیں گے

کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تیری یاد سے جس روز اُتر جائیں گے

جوہری بند کیئے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گُہر جائیں گے

نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں, مر جائیں گے

شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا، مرے یار جدھر جائیں گے

فیض آتے ہیں رہ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو، ہم تو گزر جائیں گے

فیض ـ اِدھر نہ دیکھوکہ جو بہادر

اِدھر نہ دیکھوکہ جو بہادر
قلم کے یا تیغ کے دھنی تھے
جو عزم و ہمت کے مدعی تھے
اب ان کے ہاتھوں میں صدقِ ایماں کی
آزمودہ پرانی تلوار مڑ گئی ہے
 
جو کج کلہ صاحبِ حشم تھے
جو اہلِ دستار محترم تھے
ہوس کے پرپیچ راستوں میں
کلہ کسی نے گرو رکھ دی
کسی نے دستار بیچ دی ہے

اُدھر بھی دیکھو
جو اپنے رخشاں لہو کےدینار
مفت بازار میں لٹا کر
نظر سے اوجھل ہوئے
اور اپنی لحد میں اس وقت تک غنی ہیں،

اُدھر بھی دیکھو
جو حرفِ حق کی صلیب پر اپنا تن سجا کر
جہاں سے رخصت ہوئے
اور اہلِ جہاں میں اس وقت تک نبی ہیں

فیض تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے

12/07/2014

 
تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
 
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے 
 
رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو 
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر 
 
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر 
 
ابھی زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردۂ ساز 
مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی 
 
ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں 
لغزشِ پا میں ہے پابندیِ آداب ابھی 
 
اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو 
اپنے میخانوں کو میخانہ تو بن لینے دو 
 
جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اُٹھ جائے گی 
یہ گرانباریِ آداب بھی اُٹھ جائے گی 
 
خواہ زنجیر چھنکتی ہی، چھنکتی ہی رہے 

فیض ۔ ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

8/22/2013

گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایۂ در تو دیکھو

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے 
ناصحو ، پندگرو ، راہگزر تو دیکھو

وہ تو وہ ہے، تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے 
اک نظر تم مرا محبوب نظر تو دیکھو

وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں 
دیکھنے والو کبھی ان کا جگر تو دیکھو

دامن درد کو گلزار بنا رکھا ہے 
آؤ اک دن دل پرخوں کا ہنر تو دیکھو

صبح کی طرح جھمکتا ہے شب غم کا افق 
فیض ، تابندگئ دیدۂ تر تو دیکھو

فیض - ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

3/18/2013

ہم پرورش لوح  و  قلم کرتے رہیں گے 
جو دل پہ گذری ھے رقم کرتے رہیں گے 

اسباب غم عشق بہم کرتے رہیں گے 
ویرانی دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے 

ہاں  تلخی  ایام   ابھی  اور  بڑھے  گی 
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے 

منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارہ 
دم ہے تو مداواء علم کرتے رہیں گے 

باقی ہےلہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا 
رنگ لب و  رخسار  صنم  کرتے  رہیں گے 

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک 
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

فیض - ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی

3/12/2013

ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی
جس  بار خزاں  آئي سمجھے  کہ  بہار آئي
   
آشوب نظر  سے  کی  ہم  نے  چمن  آرائی
جو شے  بھی  نظر آئی  گل  رنگ نظر آئی

فیض - ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی

2/24/2013

ہم ایسے ہی سادہ تھے کی یوں ہی پزیرائی
جس بار خزاں آئي سمجھے کہ بہار آئي

آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی گل رنگ نظر آئی

فیض - روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں


روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں 
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں 

اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں 
گوشے رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں 

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر 
کچھ کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں 

ان میں لُہو جلا ہو، ہمارا، کہ جان و دل 
محفل میں کچھ چراغِ فروزاں ہوئے تو ہیں 

ہاں کج کر و کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم 
اب بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں 

اہلِ قفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ 
بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں 

ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیض 
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں


فیض - صبا نے پھر در زنداں پر آ کے دی دستک

صبا نے پھر در زنداں  پر آ  کے  دی  دستک
سحر قریب   ہے دل  سے کہو   نہ   گھبرائے

فیض -سوچنے دو ( آندرے وز بیسن سکی کے نام)

2/23/2013

اک ذرا سوچنے دو
اس خیاباں میں
جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں
کون سی شاخ میں پھول آئے تھے سب سے پہلے
کون بے رنگ ہوئی رنگ و تعب سے پہلے
اور اب سے پہلے
کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں
خون کا قحط پرا
گل کی شہ رگ پہ کڑا
وقت پڑا
سوچنے دو
اک ذرا سوچنے دو
یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں
اس میں کس وقت کہاں
آگ لگی تھی پہلے
اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول
زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کمال
کس جگہ جوت جگی تھی پہلے
سوچنے دو
ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آنکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لئے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو

فیض - اکتوبر انقلاب روس کی سالگرہ

1/27/2013

(فیض کی ایک نظم جو انکے کسی بھی مجموعۂ کلام میں نہیں ہے) 


مرغِ بسمل کی مانند شب تلملائی
افق تا افق
صبح کی پہلی کرن جگمگائی
تو تاریک آنکھوں سے
بوسیدہ پردے ہٹائے گئے
دل جلائے گئے
طبق در طبق
آسمانوں کے در
یوں کھلے ہفت افلاک آئینہ سا ہو گئے
شرق تا غرب سب قید خانوں کے در
آج وا ہو گئے
قصرِ جمہور کی طرحِ نَو کے لئے
آج نقشِ کہن سب مٹائے گئے
سینۂِ وقت سے سارے خونیں کفن
آج کے دن سلامت اٹھائے گئے
آج پائے غلاماں میں زنجیرِ پا
ایسے چھنکی کہ بانگِ درا بن گئی
دستِ مظلوم ہتھکڑی کی کڑی
سے چمکی کہ تیغِ فضا بن گئی


(ماسکو۔ 5 نومبر 1967)

فیض - کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

7/19/2012

نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں نہ نشاں
نہ سرخیٴ لب خنجر نہ رنگ نوک سناں

نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہ جزا دیتے

نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا 
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا

پکارتا رہا، بے آسرا ، یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ

نہ مدعی ، نہ شہادت ، حساب پاک ہوا 
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

فیض - طوق و دار کا موسم

10/18/2011

روش روش ہیے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم 

گراں ہے دل پہ غمِ روزگار کا موسم 
ہے آزمائشِ حسنِ نگار کا موسم 

خوشا نظارہء رخسارِ یار کی ساعت 
خوشا قرارِ دلِ بے قرار کا موسم 

حدیثِ بادہ و ساقی نہیں تو کس مصرف 
حرامِ ابرِ سرِ کوہسار کا موسم 

نصیبِ صحبتِ یاراں نہیں تو کیا کیجے 
یہ رقص سایہء سرو و چنار کا موسم 

یہ دل کے داغ تو دکھتے تھی یوں بھی پر کم کم 
کچھ اب کے اور ہے ہجرانِ یار کا موسم 

یہی جنوں کا، یہی طوق و دار کا موسم 
یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم 

قفس ہے بس میں تمہارے، تمہارے بس میں نہیں 
چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم 

صبا کی مست خرامی تہِ کمند نہیں 
اسیرِ دام نہیں ہے بہار کا موسم 

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے 
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

فیض - پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا!کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار 
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ 
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اِک راہگزار 
اجنبی خاک نے دھندلادئیے قدموں کے سراغ 
گل کروشمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ 
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کردو 
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا 

فیض - گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام

گل  ہوئی  جاتی  ہے  افسردہ  سلگتی   ہوئی   شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات 


اور     مشتاق       نگاہوں      کی      سنی      جائیگی 
اُن ہاتھوں سے مس ہونگے یہ ترسے ہوئے ہات 
--------------
اُن کا آنچل ہے کہ رُخسار ہے کہ پیراہن ہے 
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگین 
--------------
جانے اُس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں 
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں 
--------------
آج پھر حسنِ دلآراء کی وہی دھج ہوگی 
وہی خوبیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر 
رنگ رخسار پہ وہ ہلکا سا غازے کا غبار 
صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر 
--------------
اپنے افکار کی ،اشعار کی دنیا ہے یہی 
جاںِ مضموں ہے یہی، شاہدِ معنیٰ ہے یہی 
--------------
یہ بھی ہیں، ایسے کئی اور بھی مضموں ہونگے 
لیکن اُس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ 

ہائے!اُس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط 
آپ ہی کہیے !کہیں ایسے بھی افسوں ہونگے 
--------------
اپنا موضوعِ سخن اِن کے سوا اور نہیں 
طبعِ شاعر کا وطن اِن کے سوا اور نہیں 

فیض - ترے غم کو جان کی تلاش تھی تیرے جان نثار چلے گئے

ترے غم کو جان کی تلاش تھی تیرے جان نثار چلے گئے
تری راہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِراہ گزار چلے گئے

تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے روٹھ کر مرے غمگسار چلے گئے

نہ سوال ِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں ، نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِراہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزم یار چلے گئے

نہ رہا جنونِ رُخِ وفا ، یہ دار ، یہ رسن کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گنہگار چلے گئے

فیض - نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوادیا

نہ  گنواؤ   ناوکِ نیم  کش  دل  ریزہ  ریزہ  گنوا  دیا
جو بچے  ہیں  سنگ  سمیٹ  لو  تن  داغ  داغ  لُٹا  دیا 


میرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ  دشمناں  کو  خبر  کرو 
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج  چکا  دیا 

کرو کج  جبیں  پہ سرِ کفن  میرے  قاتلوں  کو  گماں  نہ 
کہ غرورِ عشق  کا  بانکپن  پسِ  مرگ  ہم  نے  بھلا  دیا 

اُدھر  ایک  حرف  کہ  کشتنی  یہاں  لاکھ  عُذر  تھا  گفتنی 
جو کہا تو سن کے  اُڑا  دیا  جو لکھا   تو   پڑھ   کے   مٹا   دیا 

جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے 
رہِ    یار    ہم    نے    قدم     قدم    تجھے    یادگار   بنا    دیا 

فیض - نثار میں تیری گلیوں

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
 
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
 
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
 
بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسیے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
 
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں
 
بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
 
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
 سایہء دیوار و در میں جیتے ہیں
 
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
 
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے
 
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
  
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

فیض - اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے

اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے

ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے

ہے وہی عارضِ لیلٰی، وہی شیریںکادہن
نگہِ شوق پل بھر کو جہاں ٹھہری ہے

وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھری ہے

بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے

دستِ صیاد بھی عاجز ہے، کفِ گلچیں بی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے

آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

ہم نے جو طرزِ فغان کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

فیض - مرگِ سوز محبت

آؤ  کہ  مرگِ   سوزِ    محبت  منائیں  ہم 
آؤ  کہ حسنِ  ماہ  سے  دل کو جلائیں  ہم 
 
خوش ہوں فراقِ قامت و رخسارِ یار سے 
سرو گل  و  سمن  سے  نظر  کو  ستائیں  ہم 
  
ویرانیِ    حیات    کو    ویران    تر    کریں 
لے ناصح  آج  تیرا  کہا   مان   جائیں   ہم 
 
پھر  اوٹ  لے   کے  دامنِ   ابرِ   بہار   کی 
دل  کو  منائیں  ہم  کبھی  آنسو   بہائیں  ہم 
 
سلجھائیں بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال 
واں جائیں یا نہ جائیں ، نہ جائیں کہ جائیں ہم 
 
پھر  دل  کو  پاسِ  ضبط  کی  تلقین   کر   چکیں 
اور  امتحانِ  ضبط  سے   پھر   جی  چرائیں  ہم 
  
آؤ    کہ   آج    ختم    ہوئی     داستانِ   عشق 
اب   ختمِ   عاشقی   کے   فسانے   سنائیں   ہم 

فیض - چند روز اور میری جان

چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم

اک ذرا اور ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رولیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم 

جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں 
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں 

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں 
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں 

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کےدن تھوڑے ہیں 
اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں 

عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں 
ہم کو رہنا ہے پر یونہی تو نہیں رہنا ہے 
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم 
آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے 

یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد 
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار 
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد 
دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار 
چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز 

فیض - سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں

سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں 
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں 

شمعِ نظر ،  خیال  کے  انجم  ،  جگر   کے   داغ 
جتنے  چراغ  ہیں ،  تری  محفل  سے  آئے  ہیں 

اٹھ  کر  تو  آ  گئے   ہیں  تری   بزم   سے   مگر 
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں 

ہر  اک  قدم  اجل  تھا ،  ہر  اک  گام  زندگی 
ہم گھوم پھر  کے  کوچۂ  قاتل  سے  آئے  ہیں 

بادِ خزاں  کا  شکر  کرو ،  فیض  جس  کے  ہاتھ 
نامے    کسی   بہار   شمائل    سے    آئے    ہیں

فیض - کب ٹھرہے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی

کب ٹھرہے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی
سنتے  تھے  وہ  آئیں  گے   سنتے   تھے   سحر  ہو  گی 

کب   جان   لہو    ہو  گی ،   کب   اشک  گہر  ہو گا 
کس   دن   تری   شنوائی   اے    دیدہ٫  تر   ہو  گی 

واعظ ہے نہ  زاہد   ہے   ناصح   ہے   نہ   قاتل ہے 
اب شہر میں یاروں  کی  کس   طرح   بسر   ہو  گی 

کب  تک  ابھی  راہ  دیکھیں  اے  قامت   جانا نہ 
کب   حشر   معین   ہے  تجھ   کو   تو    خبر   ہو  گی 

فیص - نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

1/22/2011

نہیں نگاہ   میں   منزل   تو   جستجو   ہی   سہی
نہیں  وصال  میسر     تو    آرزو     ہی    سہی

نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق  تو  واجب  ہے  بے  وضو  ہی  سہی

کسی   طرح    تو    جمے    بزم    میکدے    والو
نہیں  جو  بادہ   و  ساغر  تو   ہاو   ہو    ہی  سہی

گر انتظار کٹھن  ہے تو  جب  تلک  اے  دل
کسی  کے   وعدہء   فردا    کی  گفتگو   ہی  سہی

دیار   غیر    میں    محرم    اگر    نہیں    کوئی
تو  فیض  ذکر   وطن   اپنے   روبرو  ہی   سہی

فیص - کچھ وقت تو لگتا ہے؛ کہیں کچھ بھی نہیں ہے

کچھ وقت تو لگتا ہے؛ کہیں کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب   نہ   سورج    نہ   اندھیرا   نہ   سویرا

آنکھوں کے دریچوں میں کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی در کا ڈیرہ

شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا

شاید وہ کوئی وہم تھا ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا

اب بیر نہ الفت نہ کوئی ربط نہ رشتہ
اپنا کوئی تیرا نہ پرایا کوئی میرا

مانا کہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے

ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے

فیض - لب بند ہیں ساقی میری آنکہوں کو پلا

2/19/2010


لب بند ہیں ساقی میری آنکہوں کو پلا
وہ جام جو مینا کش صہبا نہیں ہوتا

اجل کے ہاتہ کوئی آ رہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے