اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

امجد - گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی

1/21/2014

گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے

گلہ ہوا سے نہیں تندی ہوا سے نہیں
ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں
عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں

گلہ تو گرتے مکانوں کے بام ودر سے ہے
گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے

ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا
کوئی درخت گرے یا رہے اسے کیا ہے

گلہ تو اہل چمن کے دل و نظر سے ہے
خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے
گلہ سحر سے نہیں رونق سحر سے ہے

امجد اسلام امجد - ہم لوگ

دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے

آرزوئیں جلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں
منزلیں تمنا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں

گرد اڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا جاتا ہے
راستے نہیں گھٹتے

صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آًمد کا پیش باب کہتے ہیں
اک کرن جو ملتی ہے، آفتاب کہتے ہیں
دائرے بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں

امجد - فرض کرو ہم تارے ہوتے

فرض کرو ہم تارے ہوتے
اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتے
اور پھر اِک دن
شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے
دریا کے دو دھارے ہوتے
اپنی اپنی موج میں بہتے
اور سمندر تک اس اندھری، وحشی اور منہ زور مسافت
کے جادو میں تنہا رہتے
فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے
اُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھر
کھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے!
ابرِ بہار کے جھونکے ہوتے
موسم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتے
ملتے اور جُدا ہو جاتے
خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتے
اور اَن دیکھے سپنے بوتے
اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے
فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے

امجد اسلام امجد - محبت

محبت اوس کی صورت
پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
گلوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی، مسکراتی جگمگاتی ہے
محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے

کسی فردوس کی صورت
محبت اوس کی صورت
محبت ابر کی صورت
دلوں کی سر زمیں پہ گھر کے آتی ہے اور برستی ہے
چمن کا ذرہ زرہ جھومتا ہے مسکراتا ہے
ازل کی بے نمو مٹی میں سبزہ سر اُٹھاتا ہے
محبت اُن کو بھی آباد اور شاداب کرتی ہے

جو دل ہیں قبر کی صورت
محبت ابر کی صورت
محبت آگ کی صورت
بجھے سینوں میں جلتی ہے تودل بیدار ہوتے ہیں
محبت کی تپش میں کچھ عجب اسرار ہوتے ہیں
کہ جتنا یہ بھڑکتی ہے عروسِ جاں مہکتی ہے
دلوں کے ساحلوں پہ جمع ہوتی اور بکھرتی ہے

محبت جھاگ کی صورت
محبت آگ کی صورت
محبت خواب کی صورت
نگاہوں میں اُترتی ہے کسی مہتاب کی صورت
ستارے آرزو کے اس طرح سے جگمگاتے ہیں
کہ پہچانی نہیں جاتی دلِ بے تاب کی صورت
محبت کے شجر پرخواب کے پنچھی اُترتے ہیں
تو شاخیں جاگ اُٹھتی ہیں
تھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیں
تو کب کی منتظر آنکھوں میں شمعیں جاگ اُٹھتی ہیں

محبت ان میں جلتی ہے چراغِ آب کی صورت
محبت خواب کی صورت
محبت درد کی صورت
گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہے
شبانِ ہجر میںروشن ستارہ بن کے رہتی ہے
منڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھر اتی ہیں
نگر میں نا امیدی کی ہوئیں سنسناتی ہیں
گلی جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتا
دکھے دل کے لئے جب کوئی دھوکا نہیں رہتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو
یہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہے
کسی ہمدرد کی صورت
گزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سے
فضا میں تیرتی ہے دیر تک یہ
گرد کی صورت
محبت درد کی صورت