اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

شورش أ فغاں رُک گئی ہے نوا تھک چُکی ہے

11/29/2015

فغاں رُک گئی ہے نوا  تھک چُکی ہے
حضُورِ  خدا   ہر  دعا  تھک چُکی ہے

کئی زمزمے جاگ  کر  سو  چُکے  ہیں
کئی  جنگلوں  میں  ہوا  تھک چُکی ہے

نواہائے   معنی   کی   ٓہٹ    ہے   مدھم
عُروسِ  ادب  کی  حیا  تھک  چُکی  ہے

اُدھر  شُعلئہ   حُسن    کجلا    گیا    ہے
اِدھرچل کےشب بھرصباتھک چُکی ہے

نئے  دور  کی  اُلجھنیں  کہہ  رہی   ہیں
کہ اب رُوحِ ارض و سما تھک چُکی ہے

لہک  سو  گئی  ہے مہک سو گئی ہے
چمن لُٹ گئے ہیں صبا تھک چُکی ہے

ادھر  قافلے  راستے  کھو  چُکے  ہیں
اِدھر   ہمتِ   رہنما   تھک   چُکی  ہے






فرحت شیریں ۔کوئی لکھتا ہے ہمیں اور کوئی پڑھتا ہے

9/05/2015

لفظ۔۔
ہم سبھی شہرِ تماثیل کے کردار سہی 
کوئی لکھتا ہے ہمیں اور کوئی پڑھتا ہے
ہم سبھی لفظوں کی ڈوری سے بندھے پُتلے ہیں 
    
نام دشنام، خبر، ناوکِ مِژگاں ہیں لفظ
شور،ہنگام، اثر، روحِ زمستاں ہیں لفظ
خود کلامی کہیں مدفون ہے سناٹوں میں
لفظ کھو جانے کے ہر وہم سے ڈر جاتے ہیں
اپنی تنہائی کے آئینوں سے گھبراتے ہیں 
   
کبھی نیندوں سے جڑے خواب ہیں لفظ
آرزو بن کے کسی دستِ حنائی کے لئے
کوئی اظہار شبِ عہدِِ عروس 
جن سےبستر پہ بچھے موتيے کی خوشبو میں 
مہک اٹھتا ہے کسی بندِ قبا کا ریشم
کوئی خود مست صدا نغمہ سرا ہوتی ہے
زندگی کرب کے محور سے جدا ہوتی ہے 
   
لفظ آوارہ بھی
سرگشتہ و جاں سوختہ بھی
خوشنما چہروں پہ لکھی ہوئی تحریر بھی ہیں
خوش نگاہی سے دِکھےخوابوں کی تعبیر بھی ہیں
  
اور کہیں لفظ کہ رقصاں ہیں کسی وحشت میں
خون ٹپکاتے ہوئے
آگ برساتے ہوئے
طعنہ زن، موت کی زردی میں گُھلے لفظ کہ جو
دشتِ عبرت میں بنیں زہر سے ژولیدہ الاپ 
  
لفظ در لفظ ، معانی کا طلسم
کہنے والے کو کہاں علم کہ کل لفظوں سے
وقت افسانہ لکھے گا یاکوئی مرثیہ 
   
یا کسی نظم کو عنوان میسر ہو گا 
کوئی لکھتا ہے ہمیں اور کوئی پڑھتا ہے۔۔

ساحر ۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

8/01/2015


ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ، یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ


تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے​

ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسواسے کہو
جبر کی حکمتِ پرکارکے ایماسے کہو
محملِ مجلسِ اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے ‘ دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہء تند ہے ‘خرمن پہ لپک سکتا ہے 


ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

یہ ہے میری کہانی

7/05/2015

یہ ہے میری کہانی
خاموش زندگانی
سناٹا کہہ رہا ہے
کیوں ظلم سہہ رہا ہے
اک داستاں پرانی
تنہائی کی زبانی
ہر زخم کھل رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے
دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بس یہ میری کہانی
بے نشاں نشانی
اک درد بہہ رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بجائے پیار کے شبنم میرے گلستاں میں
برستے رہتے ہیں ہر سمت موت کے سائے
سیاہیوں سے الجھ پڑتی ہیں میری آنکھیں
کوئی نہیں کوئی بھی نہیں جو بتلائے
میں کتنی دیر اجالوں کی راہ دیکھوں گا
کوئی نہیں ہے کوئی بھی نہیں نہ پاس نہ دور
اک پیار ہے دل کی دھڑکن
اپنی چاہت کا جو اعلان کیے جاتی ہے
زندگی ہے جو جیے جاتی ہے
خون کے گھونٹ پیے جاتی ہے
خواب آنکھوں سے سیے جاتی ہے
اب نہ کوئی پاس ہے
پھر بھی احساس ہے
راہیوں میں الجھی پڑی
جینے کی اک آس ہے
یادوں کا جنگل یہ دل
کانٹوں سے جل تھل یہ دل
چھبتے کانٹوں یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں​




محسن بھوپالی ـ چاہت میں کیا دُنیا داری ، عشق میں کیسی مجبوری

چاہت میں کیا دُنیا داری ، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا؟ سمجھانے دو، اُن کی اپنی مجبوری

میں نے دِل کی بات رکھی اور تونے دُنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی اُن کا حُکم بھی مجبوری

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ، ہے مٹی کی مجبوری

ذات کدے میں پہروں باتیں اور مِلیں تو مہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آجاتی ہے ، مصنوعی مجبوری

مدت گُزری اِک وعدے پر آج بھی قائم ہیں مُحسن
ہم نے ساری عمر نبھائی ، اپنی پہلی مجبوری
اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
ساری جھوٹی باتیں ہیں
دن اپنے نہ راتیں ہیں
پل پل ایک کہانی ہے
جو جیون بھر دہرانی ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
چہرے کیا تصویریں ہیں
نہ خواب ہیں نہ تعبیریں ہیں
آس ہے جو کہ جیون ہے
الجھا الجھا بندھن ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں​

سیف الدین سیف ـ در پردہ جفائوں کو اگر جان گئے ہم

در پردہ جفائوں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ بُرا مان گئے ہم

اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دلِ ناداں
اب ھوش میں آئے تو میری جان ، گئے ہم

پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو
اے حُسنِ پشیماں ، تیرے قربان گئے ہم

ہم اور تیرے حُسنِ تغافل سے بِگڑتے
جب تُو نے کہا مان گئے؟ مان گئے ہم

بدلہ ہے مگر بھیس غم عشق کا تونے
بس اے غمِ دوراں تُجھے پہچان گئے ہم

ہے سیف بس اتنا ہی تو افسانہءِ ہستی
آئے تھے پریشان ، پریشان گئے ہم

ـ ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغ آخر شب صرف

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ آخرِ شب،  صرف
اب اس کے بعد تمھارے لئے ہیں رنگ سبھی

سبھی رتیں، سبھی موسم، تمھیں سے مہکیں گے
ہر ایک لوحِ زماں پر تمھارے نام کی مہر

ہر ایک صبح تمہاری جبیں پہ سجدہ گزار
طلوعِ مہرِ درخشاں، فروغِ ماہ تمام

یہ رنگ و نور کی بارش تمھارے عہد کے نام
اب اس کے بعد یہ ہو گا، کہ تم پہ ہونا ہے

ورود نعمتِ عظمیٰ ہو یا نزولِ عذاب
تمہی پہ قرض رہے گی تمہارے فرض میں ہے

دلوں کی زخم شماری غمِ جہاں کا حساب
گناہِ وصل کی لذت کہ ہجرتوںکا ثواب

تمام نقش تمھیں کو سنوارنا ہوں گے
رگوں میں زہر کے نشتر اتارنا ہوں گے

اب اس طرح ہے کہ گزرے دنوں کے ورثے میں
تمہاری نظر ہیں، ٹکڑےشکستہ خوابوں کے

جلے ہوۓ،کئی خیمے دریدہ پیراہن
بجھے چراغ ،لہو انگلیاں ،فگار بدن

یتیم لفظ ، ردا سوختہ ، انا کی تھکن
تمھیں یہ زخم تو آنکھوں میں گھولنا ہوں گے

عذاب اور بھی پلکوں پہ تولنا ..ہوں گے
وہ یوں بھی ہے کہ اگر حوصلے سلامت ہوں

بہت کٹھن بھی نہیں راہ گزارِ دشتِ جنوں
یہی کہ آبلہ سے جی نہ اکتائے

جراہتوں  کی مشقت سے دل نہ گھبرائے
رگوں سے درد کا سیماب اس طرح پھوٹے

نشاط کرب کا عالم فضا میں طاری ہو
کبھی جو طبل بجے مقتل حیات سجے

تو ہر قدم پہ لہو کی سبیل جاری ہو
جو یوں نہیں تو چلو اب کے اپنے دامن پر

بہ فیضِ کم نظری داغ بیشمار سہی
ادھر یہ حال کہ موسم خراج مانگتا ہے 

ادہر یہ رنگ کہ ہر عکس آئینے سے خجل
نہ دل میں زخم نہ آنکھوں میں آنسؤں کی چمک

جو کچھہ نہی تو یہی رسمِ روزگار سہی
نہ ہو نصیب رگِ گل تو نوکِ خار سہی

جو ہو سکے تو گریباں کے تار سی لینا
وگرنہ تم بھی ہماری طرح سے جی لینا

اقبال ـ آبتائوں تجھ کو رمز آیۂ 'ان الملوک'

آبتائوں تجھ کو رمز آیۂ 'ان الملوک'
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دلبری

خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزری

از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن
تا تراشی خواجہ ے از برہمن کافر تری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

گرمی گفتار اعضائے مجالس، الاماں!
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو


شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال
کتاب کا نام : بانگ درا

فیض ـ ہم مسافر یونہی مصروف سفر جائیں گے

7/01/2015


ہم مسافر یونہی مصروف سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر، تو گھر جائیں گے

کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تیری یاد سے جس روز اُتر جائیں گے

جوہری بند کیئے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گُہر جائیں گے

نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں, مر جائیں گے

شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا، مرے یار جدھر جائیں گے

فیض آتے ہیں رہ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو، ہم تو گزر جائیں گے

فیض ـ اِدھر نہ دیکھوکہ جو بہادر

اِدھر نہ دیکھوکہ جو بہادر
قلم کے یا تیغ کے دھنی تھے
جو عزم و ہمت کے مدعی تھے
اب ان کے ہاتھوں میں صدقِ ایماں کی
آزمودہ پرانی تلوار مڑ گئی ہے
 
جو کج کلہ صاحبِ حشم تھے
جو اہلِ دستار محترم تھے
ہوس کے پرپیچ راستوں میں
کلہ کسی نے گرو رکھ دی
کسی نے دستار بیچ دی ہے

اُدھر بھی دیکھو
جو اپنے رخشاں لہو کےدینار
مفت بازار میں لٹا کر
نظر سے اوجھل ہوئے
اور اپنی لحد میں اس وقت تک غنی ہیں،

اُدھر بھی دیکھو
جو حرفِ حق کی صلیب پر اپنا تن سجا کر
جہاں سے رخصت ہوئے
اور اہلِ جہاں میں اس وقت تک نبی ہیں

محسن نقوی: کبھی لب ہلیں گے تو پوچھنا

6/23/2015

ابھی کیا کہیں ، ابھی کیا سنائیں
کہ سرِفصیلِ سکوتِ جاں
کفِ روز و شب پہ شرر نما
وہ جو حرف حرف چراغ تھا
اُسے کِس ہوا نے بُجھا دیا
کبھی لب ہلیں گے تو پوچھنا

سرِ سحرِ عہدِ وِصال میں
وہ جو نِکہتوں کا ہجوم تھا
اُسے دستِ موجِ فراق نے
تہہِ خاک کب سے مِلا دیا
کبھی گُل کھلیں گے تو پوچھنا

ابھی کیا کہیں ، ابھی کیا سنائیں
یونہی خواہشوں کے فِشار میں
کبھی بے سبب کبھی بے خلل
کہاں کون کِس سے بچھڑ گیا
کِسے کِس نے کیسے گنوا دیا
کبھی پھر ملیں گے تو پوچھنا

پروین شاکر بادباں کُھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا

بادباں کُھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں ، تم کنارہ دیکھنا

یوں بچھڑنا بھی آساں نہ تھا اُس سے مگر
جاتے جاتے اُس کا وہ مُڑ کر دوبارہ دیکھنا

کِس ثباہت کو لئے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ ہجراں ، ذرا اپنا سِتارہ دیکھنا

کیا قیامت ہے کہ جِن کے نام پہ پسپا ہوئے
اُن ہی لوگوں کو مقابل میں صف آراء دیکھنا

جیتنے میں جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا

آئینے کی آنکھ ہی کُچھ کم نہ تھی میرے لئے
جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا

ایک مُشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

جالب اِس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے

اِس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

یہ ہنستا ہوا چاند ، یہ پُر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

ہر صبح ، میری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات ، میری رات پہ ہنستے رہے تارے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں
کب تک کوئی تیری اُلجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

نوشی گیلانی گریزِ شب سے ، سحر سے کلام رکھتے تھے

گریزِ شب سے ، سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دِن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے

تمہارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے

ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کُھلا
کچھ اور لوگ بھی اِس میں قیام رکھتے تھے

یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہوا تھی ساتھ تو خوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رُت میں بچھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دِل میں بہت احترام رکھتے تھے

وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر
دیئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے

محسن نقوی ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غُبارِ سفر

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اِتنی روشنی ہوگی
کہ جیسے تُند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے ، چمک کے کھو جائے
پھر اُس کے بعد کِسی کو نہ کُچھ سُجھائی دے
نہ شب کٹے نہ سُراغِ سحر دکھائی دے

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غُبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اِتنی راہ طے ہوگی
کہ جیسے تیز ہوائوں کی زد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھرے ، اُبھر کے مِٹ جائے
پھر اس کے بعد نہ منزل نہ رہگزار ملے
حدِ نگاہ تلک دشتِ بے کنار مِلے

ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلہءِ دِل و جاں سے بِچھڑنے والے ہیں
بسِ بسائے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانہء۔ ویراں اُجڑنے والے ہیں
ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا
ہماری عمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں

میر ۔ روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

5/10/2015

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
 
حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام
 
اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
 
شیرینی نسیم ہے، سوز و گداز میرؔ
حسرت تیرے سخن پہ ہے لطف سخن تمام