اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا

9/22/2019


کیا عشق ایک زندگیِ مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا

وہ عشق جس کی شمع بُجھا دے اجل کی پھُونک
اُس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا

میری بساط کیا ہے، تب و تابِ یک نفَس
شُعلے سے بے محل ہے اُلجھنا شرار کا

کر پہلے مجھ کو زندگیِ جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

اقبال ـ مقام بندگی دیگر ، مقام عاشقی دیگر

2/05/2014


مقام بندگی دیگر ، مقام عاشقی دیگر
ز نوری سجدہ می خواہی ز خاکی بیش ازاں خواہی

چناں خود را نگہ داری کہ با ایں بے نیازی ہا
شہادت بر وجودِ خود ز خون دوستاں خواہی

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۲۰)

2/02/2014


(20)
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی
دنیا میں محاسب ہے تہذیب فسوں گر کا
ہے اس کی فقیری میں سرمایۂ سلطانی
یہ حسن و لطافت کیوں ؟ وہ قوت و شوکت کیوں
بلبل چمنستانی ، شہباز بیابانی !
اے شیخ ! بہت اچھی مکتب کی فضا ، لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی
صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا
تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۸)


( 18 ) 

یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے 
کہ امتیاز قبائل تمام تر خواری 


عزیز ہے انھیں نام وزیری و محسود 
ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری 


ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی 
کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری 

وہی حرم ہے ، وہی اعتبار لات و منات 
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربت کاری!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۷)


(17)

آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں

ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں

تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں

یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پرکشا تو حقیقت میں کچھ نہیں

بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیر پر آگیا تو یہی آسماں ، زمیں!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۶)


(16)

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے ، خدائی!

جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی

در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں یافت
اے بندۂ مومن تو کجائی ، تو کجائی

خورشید ! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائی

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۵)


(15)

آدم کا ضمیر اس کی حقیقت پہ ہے شاہد
مشکل نہیں اے سالک رہ ! علم فقیری

فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق
پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری

خود دار نہ ہو فقر تو ہے قہر الہی
ہو صاحب غیرت تو ہے تمہید امیری 

افرنگ ز خود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندۂ مومن ! تو بشیری ، تو نذیری!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۴)

۱۶
بے جرأت رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قوی جس کا ، وہ عشق یداللہی

جو سختی منزل کو سامان سفر سمجھے
اے وائے تن آسانی ! ناپید ہے وہ راہی

وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی!
کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی

دنیا ہے روایاتی ، عقبی ہے مناجاتی
در باز دو عالم را ، این است شہنشاہی!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۳)


(13)

مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگرگوں
معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا

ہر سینے میں اک صبح قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا

کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیر حرم تیری مناجات سحر کیا

ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۲)

(12) 

لا دینی و لاطینی ، کس پیچ میں الجھا تو 
دارو ہے ضعیفوں کا 'لاغالب الا ھو' 

صیاد معانی کو یورپ سے ہے نومیدی 
دلکش ہے فضا ، لیکن بے نافہ تمام آہو 


بے اشک سحر گاہی تقویم خودی مشکل 
یہ لالۂ پیکانی خوشتر ہے کنار جو 

صیاد ہے کافر کا ، نخچیر ہے مومن کا 
یہ دیر کہن یعنی بتخانۂ رنگ و بو 

اے شیخ ، امیروں کو مسجد سے نکلوا دے 
ہے ان کی نمازوں سے محراب ترش ابرو 

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۱)


(11)

جس کے پرتو سے منور رہی تیری شب دوش
پھر بھی ہو سکتا ہے روشن وہ چراغ خاموش

مرد بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ
بندۂ حر کے لیے نشتر تقدیر ہے نوش

نہیں ہنگامہ پیکار کے لائق وہ جواں
جو ہوا نالۂ مرغان سحر سے مدہوش

مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱۰)


(10)

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری

اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری

عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری

خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری

نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۹)


(9)

عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس

یوں بھی دستور گلستاں کو بدل سکتے ہیں
کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثل قفس

سفر آمادہ نہیں منتظر بانگ رحیل
ہے کہاں قافلۂ موج کو پروائے جرس!

گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے ، مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس

پرورش دل کی اگر مد نظر ہے تجھ کو
مرد مومن کی نگاہ غلط انداز ہے بس!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۸)

( 8)

زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر
شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر

لیکن اے شہباز! یہ مرغان صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۷)


(7)

رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان
تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان

اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!

موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان

اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!

اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا
جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان

اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان

اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۶)


(6)

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۴)

(4)

کیا چرخ کج رو ، کیا مہر ، کیا ماہ
سب راہرو ہیں واماندۂ راہ

کڑکا سکندر بجلی کی مانند
تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ

نادر نے لوٹی دلی کی دولت
اک ضرب شمشیر ، افسانۂ کوتاہ

افغان باقی ، کہسار باقی
الحکم للہ ! الملک للہ !

حاجت سے مجبور مردان آزاد
کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ

محرم خودی سے جس دم ہوا فقر
تو بھی شہنشاہ ، میں بھی شہنشاہ!

قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۳)


(3)

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

وہی شراب ، وہی ہاے و ہو رہے باقی
طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۲)


(2)

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام
نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز ، نہ تو

خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو ترے دل میں 'لاشریک لہ'


اقبال ـ محراب گل افغان کے افکار (۱)


(1)

میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک

روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ
لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک

تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں
خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک

باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام
حفظ بدن کے لیے روح کو کردوں ہلاک!

اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا
خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!

اقبال ـ اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد

1/15/2014


اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

یہ مشت خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعت افلاک
  !کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ، یہی ہے باد مراد؟

قصور وار ، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تیرا جہان بے بنیاد

خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

اقبال ـ بال جبریل : کیا عشق ایک زندگی مستعار کا


کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا

وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا

میری بساط کیا ہے ، تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا

کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دل بے قرار کا

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب ، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو!

اقبال ـ گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر

11/28/2013


گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظر شکار کر

عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

تو ہے محیط بے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر

نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر

روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر

اقبال ـ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے

11/06/2013


ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا ، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے



اقبال ـ اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا

اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا؟

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب ، لامکاں تیرا ہے یا میرا؟

اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا ، وہ راز داں تیرا ہے یا میرا؟

محمد بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟

اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟

اقبال ـ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

 میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں

حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں

گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں

گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں

تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں

اقبال ـ ز من بر صوفی و ملا سلامی

5/28/2013


ز من بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند ما را 

ولی تأویل شان در حیرت انداخت 
خدا و جبرئیل و مصطفی را


اقبال - میرِ سپاہ ناسزا، لشکر یاں شکستہ صف

3/19/2013

میرِ  سپاہ  ناسزا،  لشکر یاں  شکستہ  صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

تیرے   محیط  میں  کہیں   گوہرِ   زندگی   نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف

عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش  و  نگار  دَیر   میں   خونِ   جگر  نہ  کر  تلف

کھول کے کیا بیاں کرو سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ باشرف،  مرگ حیاتِ  بے شرف

صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم  سر بکف

مثلِ  کلیم   ہو   اگر   معرکہ    آزما    کوئی
اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لاتخف

خیرہ نہ  کر  سکا  مجھے  جلوۂ  دانش  فرنگ
سرمہ  ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ  و  نجف

اقبال - ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست

ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر و   بر  در  گوشہ دامان اوست

سوز صدیق و علی از حق طلب
ذرہ  عشق  نبی  از  حق طلب

زاں کہ ملت را حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات  از   عشق  اوست

روح را  جز  عشق  او  آرام نیست
عشق او روز یست کو راشام نیست

اقبال - من ہیچ نمی ترسم از حادثۂ شب ہا

من ہیچ  نمی ترسم  از حادثۂ  شب  ہا
شبہا کہ سحر گردد از گردش کوکب ہا

نشناخت  مقام   خویش  افتاد  بدام  خویش
عشقی کہ نمودی خواست از شورش یارب ہا

آہی کہ ز دل خیزد از  بہر جگر سوزی است
در  سینہ  شکن  او  را  آلودہ  مکن  لب  ہا

در میکدہ باقی نیست از ساقی فطرت خواہ
آن می کہ نمی گنجد  در شیشۂ مشرب ہا

آسودہ نمی گردد آندل کہ گسست از دوست
با  قرأت  مسجد ہا   با   دانش  مکتب  ہا

اقبال - قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب  باہم  جو  نہیں ،  محفل ِ انجم بھی نہیں

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ   قے  کو  تعلق   نہیں   پیمانے   سے

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ  تورانی   رہے   باقی  ،  نہ   ایرانی  نہ  افغانی

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا ، محبت  کی  زباں ہو جا

یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل ، اچھل کر بیکراں ہوجا

ربط ملت و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے  اب  تک  بے خبر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر

نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو  مانند  خاک  رہ  گزر

اس دور میں قوموں کی محبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ   نگاہوں   سے   رہی   وحدت   آدم

تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام  کا  مقصود  فقط  ملت  آدم

مکہ نے دیا خاک جینو ا کو یہ پیغام
جمعیت   اقوام   ہے  جمعیت   آدم

اقبال - دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

دگرگوں ہےجہاں ، تاروں کی گردش تیز ہےساقی
دل  ہر  ذرہ  میں غوغائے  رستا خیز   ہے  ساقی

متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی

وہی دیرینہ بیماری ، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

حرم کے دل میں سوز  آرزو  پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی

نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی  آب و  گل  ایراں ، وہی  تبریز  ہے  ساقی

فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی
بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت  زرخیز  ہے ساقی

اقبال - لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی


لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی!

تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو  عام  اے ساقی

مری مینائے غزل میں  تھی  ذرا  سی  باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی

شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی

عشق کی  تیغ  جگردار  اڑا  لی  کس  نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی

سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی

تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں  ہے  ماہ  تمام  اے ساقی

اقبال - کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت


کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں

کلبہ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں شہر میں گلشن میں ویرانے میں موت

موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں

نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوق گلو افشار ہے

قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں
اک متاع دیدہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

اقبال - کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں

کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز

لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاک حجاز

ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز

لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس
وہ مۂ سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز

حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز

ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز

گفت رومی ''ہر بناے کہنہ کآباداں کنند''
می ندانی ''اول آں بنیاد را ویراں کنند''

''ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں''
حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر

مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
مور بے پر! حاجتے پیشِ سلیمانے مبر

ربط و ضبطِ ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظِ حرم کا اک ثمر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر

جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں ، مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانندِ خاکِ رہ گزر

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہشیار باش

عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ

تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج
موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ

عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ

اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر، دیکھ

کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
سامنے تقدیر کے رسوائیِ تدبیر دیکھ

مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر، 'لایخلف المیعاد' دار

اقبال - اے تہی ازذوق و شوق وسوز و درد

اے تہی ازذوق و شوق وسوز و درد
می  شناسی  عصر  ما با ما چہ کرد

عصر ما ما را ز ما بیگانہ کرد
از جمال مصطفی بیگانہ کرد

در دل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے   ما  ز  نام مصطفی است

اقبال - دلت می لرزد از اندیشہ مرگ

دلت می لرزد از اندیشہ مرگ
زبیمش  زرد  مانند  زریری

بخود باز آ، خودی را پختہ تر گیر
اگر گیری، پس از مردن نہ میری

دل بے باک را ضرغام رنگ است
دل ترسندہ  را   آہو  پلنگ است

اگر بیمی نداری، بحر صحر است
اگر ترسی بہر موجش نہنگ است

بہ  گوشم  آمد   از   خاک  مزارے
کہ در زیر زمیں ہم می تواں زیست

نفس دارد و لیکن جاں نہ دارد
کسے کو بر مراد دیگراں زیست

گر بہ اللہ الصمد دل بستہ ای
از حد اسباب بیروں جستہ ای

بندہ حق، بندہ اسباب نیست
زندگانی گردش دولاب نیست

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن  سے  نکال  دو

اقبال - کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت

کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی  میں مانند  نسیم  ارزاں ہے موت

زلزلے ہیں ، بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام  ہیں
کیسی    کیسی    دختران    مادر    ایام    ہیں

کلبہ  افلاس  میں ،  دولت  کے  کاشانے  میں  موت
دشت و در میں شہر میں گلشن میں ویرانےمیں موت

موت   ہے  ہنگامہ آرا  قلزم  خاموش  میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں

نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوق گلو افشار ہے

قافلے میں غیر  فریاد  درا کچھ بھی نہیں
اک متاع دیدہ تر  کے سوا کچھ بھی نہیں

اقبال - تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

3/18/2013

تو غنی از  ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے  من  پذیر
گر تو می  بینی  حسابم  ناگزیر
از  نگاہِ  مصطفی  پنہاں  بگیر

اقبال - نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے

بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا  ہے

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے

کسے نہیں ہے تمنائے سروری ، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے

اقبال - فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

3/05/2013


اس کھیل میں تعیین   مراتب   ہے  ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں ، میں پیادہ

بیچارہ   پیادہ   تو   ہے   اک   مہرۂ    نا چیز
فرزیں  سے   بھی   پوشیدہ  ہے  شاطر  کا  ارادہ

اقبال - گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا

گلا تو گھونٹ دیا  اہل مدرسہ  نے ترا
کہاں سے   آئے  صدا  لا  الہ  الا  اللہ

مکتب از مقصود  خویش آگاہ   نیست
تا    بجذب    اندرونش    راہ   نیست

علم  تا  از  عشق  بر  خوردار   نیست
جز    تماشا     خانۂ     افکار    نیست

The school personnel have already throttled thee; where-from can now come the voice of 'None is worthy of worship except God'? The school is unaware of its aims and objects, until it has an access to the urge within. As long as knowledge does not taste the fruits of love; it is nothing but an exhibition of thoughts.



اقبال - جرات ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا

جرات  ہے تو  افکار  کی  دنیا  سے  گذر  جا
ہیں بحر خودی  میں ابھی  پوشیدہ  جزیرے

کھلتے نہیں اس  قلزم  خاموش  کے  اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے


اقبال - یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں

یہ  بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ    ادائے    کافرانہ   ،   نہ    تراش   آذرانہ

These ideals of the present era, the product of the school, are endowed neither with the manners of the infields nor with the masterly cut of Abraham's father.



اقبال - تندیٴ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

تندیٴ بادِ مخالف سے نہ گھبرا  اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا  اڑانے کے لئے

اقبال - خاکساران جہاں را بحقارت منگر

خاکساران  جہاں  را   بحقارت   منگر
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد

اقبال - فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا

فارغ تو  نہ  بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک

اقبال - اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے

اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اک  ضربِ  ید  اللّٰہی ،  اک  سجدئہ  شبیری

اقبال - کس کا گماشتہ ہے امیر سپاہ شہر

کس  کا   گماشتہ   ہے   امیر   سپاہ   شہر
کن معرکوں میں ہے صفِ لشکر لگی  ہوئی

برباد  کر  کے  بصرہ   و   بغداد   کا  جمال
اب  چشم  بد  ہے  جانب  خیبر  لگی  ہوئی

غیروں سے کیا گلہ ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی  آگ  مرے  گھر   لگی  ہوئ


اقبال - باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ  جہاں  دراز   ہے  اب   میرا   انتظار   کر


روزِ حساب  جب  میرا  پیش  ہو  دفتر  عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر



اقبال - اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا

اگر  کج  رو  ہیں  انجم   آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاںکیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا



اقبال - تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور

تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزر، ایسے  امام  سے گزر

اقبال - اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

اٹھو میری  دنیا  کے  غریبوں  کو  جگا  دو
کاخِ   امراء   کے    در   و   دیوار    ہلا   دو

گرماؤ   غلاموں  کا   لہو   سوزِ  یقیں   سے
کنجشک  فرومایہ  کو  شاہیں  سے  لڑا   دو

میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے   لئے   مٹی   کا   حرم   اور   بنا   دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے  ہر خوشہٴ گندم  کو  جلا  دو

اقبال - پیکر ہستی ز آثار خودیسست

3/03/2013


پیکر  ہستی  ز  آثار  خودیسست
ہرچہ می بینی ز اسرار خودیست

زمین و آسمان و چار سو  نیست
دریں  عالم  بجز  اللہ   ہو  نیست


The structure of man's existence is a relic of his own self whatever you see around, is one of the secrets of the self It is not the earth and the firmament that is spreading in all directions. In this universe there is nothing except the manifestation of God Khudi signifies mind or consciousness. Since, wherever there is mind or consciousness