اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

غالب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
غالب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

غالب ـ ابن مریم ہوا کرے کوئی

5/28/2013


ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

غالب - کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو

2/24/2013

کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینہ میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

کیا غمخوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تم ہی تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسماں کیوں ہو

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں 
عدو کے ہو لئے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
تِرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو


غالب - کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیدار کہ ہم

2/23/2013


کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیدار کہ ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں جو تیر قضا ہوتا ہے 


غالب - بازیچہٴ اطفال ہے دنیا مرے آگے

2/20/2010


بازیچہٴ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں، مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا، مرے آگے

جزنام، نہیں صورت عالم، مجھے منظور
جزوہم، نہیں ہستی اشیاء، مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا، مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا، ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا، مرے آگے

سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئینہ سیما، مرے آگے

پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہٴ صہبا، مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے، میں ر شک سے گزرا
کیوں کر کہوں ”لونام نہ ان کا مرے آگے“

ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا، مرے آگے

عاشق ہوں، پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے، لیلیٰ، مرے آگے

خوش ہوتے ہیں، پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شبِ ہجراں کی تمنا، مرے آگے

ہے موج زن اک قلزمِ خوں، کاش، یہی ہو
آتا ہے، ابھی دیکھئے، کیا کیا، مرے آگے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم پیشہ وہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو؟ اچھا مرے آگے

غالب - مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

2/19/2010


مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے

پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے

پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کئے ہوئے

پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کئے ہوئے

پھر بھر رہا ہوں خامہٴ مژگاں بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازیٴ داماں کئے ہوئے

باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کئے ہوئے

دل پھر طواف، کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوئے

دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کئے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامہٴ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دلفریبیٴ عنواں کئے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنہٴ مژگاں کئے ہوئے

اک نوبہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے

پھر جی میں ہےکہ در پہ کسی کےپڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کئے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے

غالب ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّہٴ طوفاں کئے ہوئے