بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے
ہم کبھی تیرے عِناں گیر ہوا کرتے تھے
اے کہ اب بھول گیا رنگِ حنا بھی تیرا
خط کبھی خون سے تحریر ہوا کرتے تھے
سایۂ زلف میں ہر رات کو سو تاج محل
میرے انفاس میں تعمیر ہوا کرتے تھے
ہجر کا لطف بھی باقی نہیں، اے موسِم عقل
اُن دنوں نالۂ شب گیر ہوا کرتے تھے
اُن دنوں دشت نوردی میں مزا آتا تھا
پاؤں میں حلقۂ زنجیر ہوا کرتے تھے
خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کرتے تھے
وہ کہ احسان ہی احسان نظر آتا تھا
ہم کہ تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں