آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا
ميں خود ہی سرِ منزل شب چيخ پڑا
لمحوں کی فصيليں بھی مرے گرد کھڑی تھيں
ميں پھر بھی تجھے شہر ميں آوارہ لگا تھا
تونے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ
ميں فکر کی دہليز پہ چپ چاپ کھڑا تھا
پھيلی تھيں بھرے شہر ميں تنہائی کی باتيں
شايد کوئی ديوار کے پيچھے بھی کھڑا تھا
اب اس کے سوا ياد نہيں جشنِ ملاقات
اک ماتمی جگنو مری پلکوں پہ سجا تھا
يا بارشِ سنگ ، اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی
يا پھر ميں ترے شہر کی راہ بھول گيا تھا
ويران نہ ہو اس درجہ کوئی موسم گل بھی
کہتے ہيں کسی شاخ پہ اک پھول کھلا تھا
اک تو کہ گريزاں ہی رھا مجھ سے بہر طور
اک ميں کہ ترے نقش قدم چوم رہا تھا
ديکھا نہ کسی نے بھی مری سمت پلٹ کر
محسن ميں بکھرتے ہوئے شيشوں کی صدا تھا
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں