کلام

اردو اور فارسی شاعری سے انتخابات -------- Selections from Urdu and Farsi poetry

اگلا صفحہ آغاز پچھلا صفحہ

نوشی گیلانی - گریزِ شب سے ، سحر سے کلام رکھتے تھے

1/29/2014


گریزِ شب سے ، سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دِن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے

تمہارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے

ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کُھلا
کچھ اور لوگ بھی اِس میں قیام رکھتے تھے

یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہوا تھی ساتھ تو خوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رُت میں بچھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دِل میں بہت احترام رکھتے تھے

وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر
دیئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

فراز ـ شکست و فتح


شکست  و   فتح    مرا   مسئلہ   نہیں   ہے
میں  زندگی  سے   نبرد  آزما  رہا ،  سو  رہا

دیکھ پندار اُن آشفتہ سروں کا  کہ جنہیں
بخت ِ منصور ملا ، تخت ِ سکندر  نہ  ملا
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا

1/27/2014

نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں، کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غم  عشق  تو  اپنا  رفیق  رہا  کوئی  اور  بلا  سے  رہا نہ رہا

دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشین کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی  اپنی  برائیوں  پر  جو  نظر،  تو  نگاہ  میں  کوئی  برا  نہ  رہا

تیرے ُرخ  کے خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ  پہ نہ  فتنہ  روز  جزا
تیری زلف کے دھیان میں کون سی شب میرے سر پہ ہجوم  بلا  نہ رہا

ہمیں ساغرِ بادہ کے دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غصب
کہ یہ عہدِ نشاط یہ دورِطرب، نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا

کئی روز میں آج و مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما
مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا

تیر خنجر و تیخ کی آب رواں ہوئی جبکہ سبیل ستمزدگاں
گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنہ آب بقا نہ رہا

مجھے صاف بتائے نگار اگر تو یہ پوچھوں میں رو رو کے خون جگر
ملے پاؤں سے کس کے ہیں دیدہ تر کف پا جو رنگ حنا نہ رہا

اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کیے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا

لگے یوں تو ہزاروں تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم
ولے ناز و کرشمہ کی تیخ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جیسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جیسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی

چینی کی گُڑیا سی جب وہ
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی
میری جانب آتی ہے تو
اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کِھلتا ہے
"پاپا"

اللہ۔ اس آواز میں کتنی راحت ہے
ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر جب وہ مجھ سے چُھوتی ہے تو
یوں لگتا ہے
جیسے میری رُوح کی ساری سچّائی
اس کے لمس میں جاگ اٹھتی ہے
اے مالک، اے ارض و سما کو چُٹکی میں بھر لینے والے
تیرے سب معمور خزانے
میری ایک طلب
میرا سب کچھ مجھ سے لے لے
لیکن جب تک
اس آکاش پہ تارے جلتے بُجھتے ہیں
میرے گھر میں روشن رکھنا
یہ معصوم ہنسی

اے دنیا کے رب
کوئی نہیں ہے اس لمحے تیرے میرے پاس
سچ سچ مجھ سے کہہ
تیرے ان معمور خزانوں کی بے انت گرہ میں
بچے کی معصوم ہنسی سے زیادہ پیاری شے
کیا کوئی ہے؟
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ اگر کبھی میری یاد آئے

اگر کبھی میری یاد آئے 
تو چاند راتوں کی دلگیر روشنی میں 
کسی ستارے کو دیکھ لینا 
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آگرے تو یہ جان لینا 
وہ استعارہ تھا میرے دل کا 
اگر نہ آئے ؟۔۔۔۔۔

مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ کسی پر نگاہ ڈالو 
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے 
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے 

اگر کبھی میری یاد آئے 
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا 
میں خوشبووں میں تمہیں ملوں گا 
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا 
میں اوس قطرہ کے آئینے میں تمہیں ملوں گا 

اگر ستاروں میں ، اوس خوشبوں میں 
نہ پاؤ مجھ کو 
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا 
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا 

کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا 
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی سلگ چکا ہوں 
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا 
میں خاک بن کر سمندر میں سفر کروں گا 
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رُک کے تمہیں صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو 
تو اس جزیرے پہ کبھی اترنا!
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی

محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھا ہے !
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
ا سے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے

یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو !
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ' لہو میں جگمگاتی ہو !
ہزاروں طرح کے دلکش ' حسیں ہالے بناتی ہو !
ا سے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے

محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے !

محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ''مجھ سے محبت ہے ''
کہو ''مجھ سے محبت ہے ''
تمہیں مجھ سے محبت ہے

کچھ ایسی بے سکو نی ہے وفا کی سر زمیوں میں
کہ جو اہل محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو' کہ جیسے ہاتھ میں پاراکہ جیسے شام کاتارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں ر ہتی ہے '
گماں کے شاخ پر آشیاں بنتا ہے الفت کا !
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خد شوں میں رہتی ہے '

محبت کے مسافر زند گی جب کا ٹ چکتے ہیں
تھکن کی کر چیاں چنتے ' وفا کی اجر کیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر
دھیرے سے کہتا ہے
یہ سچ ہے نا !
ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی !

دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
ا سی کا نام چاہت ہے !
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے !!'
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ چشمِ بے خواب کو سامان بہت

چشمِ بے خواب کو سامان بہت

رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے

روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے
ہر طرف چیخ سی لہراتی ہے

ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
چشم بے خواب کو سامان بہت
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ مجھے تم سے محبت ہے

(محبت کی ایک نظم)

محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے

بوسوں کی حلاوت سے جب ہونٹ سلگتے ہوں
سانسوں کی تمازت سے جب چاند پگھلتے ہوں

اور ہاتھ کی دستک پر
جب بندِ قبا اس کے کھلنے کو مچلتے ہوں

عشق اور ہوس کے بیچ کچھ فرق نہیں رہتا
کچھ فرق اگر ہے بھی اس وقت نہیں رہتا

جب جسم کریں باتیں دریا بھی نہیں بہتا
میں جھوٹ نہیں کہتا

اے شام گواہی دے
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ آخری چند دن دسمبر کے

ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں

رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے

فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے

کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں

دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں

ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی

ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک

میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے

خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے

ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے

ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے

نام میرا بھی
کٹ گیا ہوگا 


اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے

دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے 

اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے 

بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رُکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے 

کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے 

میں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے 

وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ کیوں ؟

ہر موج کے دامن میں بیدار جو دریا ہے
اک ریت کے ذرے میں آباد جو صحرا ہے

کیا اُس کی وضاحت ہے کیا اس کا تقاضا ہے
جو سامنے آتا ہے منظر ہے کہ پردہ ہے

بے انت سوالوں کی زنجیر ہے یہ دنیا
اُس عکس کے سایوں کی تصویر ہے یہ دنیا

جس عکس کے جلوے کو ہر آنکھ ترستی ہے
ہے ایک گھٹا ایسی ، کُھلتی نہ برستی ہے

کیوں رنگ نہیں رُکتے ، کیوں بات نہیں چلتی
کیوں چاند نہیں بُجھتا کیوں رات نہیں جلتی

موسم کی صدا سُن کر کیوں شاخ لرزتی ہے
کیوں اوس کف ِ گُل پر پل بھر کو ٹھہرتی ہے

کیوں خواب بھٹکتے ہیں کیوں آس بکھرتی ہے
اس ایک تسلسل سے کیوں وقت نہیں تھکتا

بس ایک تحیر میں کیوں عمر گزرتی ہے
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں

زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں 
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں 

بات گو ذرا سی ہے 
بات عمر بھر کی ہے 
عمر بھر کی باتیں کب 
دو گھڑی میں ہوتی ہیں 
وقت کے سمندر میں 
ان گنت جزیرے ہیں 
بے شمار موتی ہیں 
آنکھ کے دریچے میں 
تم نے جو سجایا تھا 
بات اس دیے کی ہے 
بات اس گلے کی ہے 
جو لہو کی خلوت میں 

چھوڑ بن کے آتا ہے 
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے 

زندگی سے لمبی ہے 
بات رت جگے کی ہے 
راستے میں کیسے ہو 
بات تخلیے کی ہے 

تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے 
پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے 
ہو سکے تو سن جانا ایک دن اکیلے میں 
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو

شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو
اِک اِک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اُجالا ہو تو کہو

رازِ محبت کہنے والے لوگ تو لاکھوں ملتے ہیں
رازِ محبت رکھنے والا، ہم سا دیکھا ہو تو کہو!

کون گواہی دے گا اُٹھ کر جھوٹوں کی اس بستی میں
سچ کی قیمت دے سکنے کا تم میں یارا ہو تو کہو!

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے
ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

امجد صاحب آپ نے بھی تو دُنیا گھوم کے دیکھی ہے
ایسی آنکھیں ہیں تو بتاؤ! ایسا چہرا ہو تو کہو!
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا

ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلرُبا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہنا

کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا

ہَوا یہ خبر تُو سناتی رہے اور مَیں سُنتا رہوں
بدلنے کو ہے اب یہ موسم خزانی، ذرا پھر سے کہنا

مُکر جانے والا کبھی زندگی میں خوشی پھر نہ پائے
یونہی ختم کرلیں، چلو یہ کہانی، ذرا پھر سے کہنا

سمے کے سمندر، کہا تُو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے
جوانی کی ندّی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا 
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی

ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی

ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی

جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی

آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی

قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی

طالب ہیں تیرے رحم کےعدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی

امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
آنکھوں سے اُس کو چومتے تعزیر جو بھی تھی
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے

عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالم ِموجود استعارا ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ یہ دشتِ ہجر، یہ وحشت، یہ شام کے سائے

یہ دشتِ ہجر، یہ وحشت، یہ شام کے سائے
خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دِکھلائے 

اُسی کے نام سے لفظوں میں چانداُترے ہیں
وہ ایک شخص کہ دیکھوں تو آنکھ بھر آئے 
جو کھو چکے ہیں اُنہیں ڈھونڈنا تو ممکن ہے

جو جا چکے ہیں اُنہیں کوئی کس طرح لائے 
کلی سے میں نے گلِ تر جسے بنایا تھا

رُتیں بدلتی ہیں کیسے، مجھے ہی سمجھائے 
جو بے چراغ گھروں کو چراغ دیتا ہے

اُسے کہو کہ مِرے شہر کی طرف آئے 
یہ اضطرابِ مسلسل عذاب ہے امجد

مِرا نہیں تو کسی اور ہی کا ہو جائے 


اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

جالب ـ اے چاند یہاں نہ نکلا کر

اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے

اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں

ہے یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت

اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
مغرب کا راج ہی سچا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

جالب ـ میں نے اس سے یہ کہا

میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا

میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہےمہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا

میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں

میں نے اس سے یہ کہا
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا

میں نے اس سے یہ کہا
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو 'یقین'ہے یہ 'گماں'
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا

میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا

میں نے اس سے یہ کہا

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

جالب ـ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا 

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا 

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

جالب ـ تو کہ ناوا قفِ آدابِ شہنشاہی تھی

یہ حبیب جالب کی وہ مشہورنظم ہے جوانہوں نے شان کی والدہ اداکارہ نیلوکے لیے اس وقت لکھی تھی، جب انہوں نے 1965 میں شاہ ایران کے دورہ پاکستان کے موقع پررقص سے انکارکردیاتھا، پاکستان کی سپرہٹ فلم زرقامیں اس نظم پر مہدی حسن خان صاحب کی آواز میں گانابھی فلمایاگیاہے

تو کہ ناوا قفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرّات جو ہوئ تو کیونکر
سایہ ِءشاہ میں اسطرح جیا جاتا ہے

اہلِ ثروت کی یہ تجویز ہے، سر کش لڑکی
تجھکو دربار میں کوڑوں سے نچایا جاے
ناچتے ناچتے ہو جاے جو پائل خاموش
پھر نہ تازیست تجھے ہوش میں لایا جاے

لوگ اس منظر جانکاہ کو جب دیکھیں گے
اور بڑھ جاے گا کچھ سطوتِ شاہی کا جلال
تیرے انجام سے ہر شخص کو عبرت ہوگی
سر اٹھانے کا رعایا کو نہ آے گا خیال

طبعِ شاہانہ پہ جو لوگ گِراں ہوتے ہیں
ہاں انھیں زہر بھرا جام دیا جاتا ہے
تو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد ـ ھم لوگ نہ تھے ایسے

ھم لوگ نہ تھے ایسے
ہیں جیسے نظر آتے

اے وقت گواہی دے
ھم لوگ نہ تھے ایسے
یہ شہر نہ تھا ایسا
یہ روگ نہ تھے ایسے

دیوار نہ تھے رستے
زندان نہ تھی بستی
آزار نہ تھے رشتے

خلجان نہ تھی ہستی
یوں موت نہ تھی سستی

یہ آج جو صورت ہے
حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم
دن رات نہ تھے ایسے

تفریق نہ تھی ایسی
سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے
ھم لوگ نہ تھے ایسے
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد - وقت بھی کتنا ظالم ہے

1/25/2014

اتنے برس کی دوری اور مجبوری کے
افسونِ سفر میں لپٹا ہوا

اک شخص اچانک آن ملا
میں اس کو دیکھ کے ششدر تھا
وہ مجھ سے سوا حیران ملا!
یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے!

اس ہجر میں کیا کیا روئے تھے ہم
اس یاد میں کیا کیا کھوئے تھے ہم´
کچھ دیر تو دونوں چپ سے رہے

پھر اس نے کہا.... ”تم کیسے ہو؟“
اور میں نے کہا.... ”بس اچھا ہوں؟“

پھر اس نے کہا
” یہ اتنے دنوں کے بعد کا ملنا خوب رہا....!
کوئی پرانا دوست ملے تو دل کو بھلا سالگتا ہے....
یہ شہر تو بالکل بدل گیا.... اب چلتی ہوں!“

پھر میں نے کہا
”میں شام سمے ہر روز یہاں پر آتا ہوں....
جب وقت ملے تم آجانا....
اس وقت مجھے بھی جلدی ہے.... اب چلتا ہوں!“

یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

افتخار ـ پَل بھر میں ہو رہے گا حِساب نبود و بُود

1/22/2014

پَل بھر میں ہو رہے گا حِساب نبود و بُود
پیچ و خمِ وجود و عدم ، اور کتنی دیر؟ 

دَامن کےسارےچاک، گرِیباں کےسَارےچاک 
ہو بھی گئے بَہم، تو بَہم، اَور کِتنی دیر؟
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد - گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی

1/21/2014

گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے

گلہ ہوا سے نہیں تندی ہوا سے نہیں
ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں
عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں

گلہ تو گرتے مکانوں کے بام ودر سے ہے
گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے

ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا
کوئی درخت گرے یا رہے اسے کیا ہے

گلہ تو اہل چمن کے دل و نظر سے ہے
خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے
گلہ سحر سے نہیں رونق سحر سے ہے

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد اسلام امجد - ہم لوگ

دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے

آرزوئیں جلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں
منزلیں تمنا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں

گرد اڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا جاتا ہے
راستے نہیں گھٹتے

صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آًمد کا پیش باب کہتے ہیں
اک کرن جو ملتی ہے، آفتاب کہتے ہیں
دائرے بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد - فرض کرو ہم تارے ہوتے

فرض کرو ہم تارے ہوتے
اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتے
اور پھر اِک دن
شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے
دریا کے دو دھارے ہوتے
اپنی اپنی موج میں بہتے
اور سمندر تک اس اندھری، وحشی اور منہ زور مسافت
کے جادو میں تنہا رہتے
فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے
اُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھر
کھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے!
ابرِ بہار کے جھونکے ہوتے
موسم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتے
ملتے اور جُدا ہو جاتے
خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتے
اور اَن دیکھے سپنے بوتے
اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے
فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

امجد اسلام امجد - محبت

محبت اوس کی صورت
پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
گلوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی، مسکراتی جگمگاتی ہے
محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے

کسی فردوس کی صورت
محبت اوس کی صورت
محبت ابر کی صورت
دلوں کی سر زمیں پہ گھر کے آتی ہے اور برستی ہے
چمن کا ذرہ زرہ جھومتا ہے مسکراتا ہے
ازل کی بے نمو مٹی میں سبزہ سر اُٹھاتا ہے
محبت اُن کو بھی آباد اور شاداب کرتی ہے

جو دل ہیں قبر کی صورت
محبت ابر کی صورت
محبت آگ کی صورت
بجھے سینوں میں جلتی ہے تودل بیدار ہوتے ہیں
محبت کی تپش میں کچھ عجب اسرار ہوتے ہیں
کہ جتنا یہ بھڑکتی ہے عروسِ جاں مہکتی ہے
دلوں کے ساحلوں پہ جمع ہوتی اور بکھرتی ہے

محبت جھاگ کی صورت
محبت آگ کی صورت
محبت خواب کی صورت
نگاہوں میں اُترتی ہے کسی مہتاب کی صورت
ستارے آرزو کے اس طرح سے جگمگاتے ہیں
کہ پہچانی نہیں جاتی دلِ بے تاب کی صورت
محبت کے شجر پرخواب کے پنچھی اُترتے ہیں
تو شاخیں جاگ اُٹھتی ہیں
تھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیں
تو کب کی منتظر آنکھوں میں شمعیں جاگ اُٹھتی ہیں

محبت ان میں جلتی ہے چراغِ آب کی صورت
محبت خواب کی صورت
محبت درد کی صورت
گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہے
شبانِ ہجر میںروشن ستارہ بن کے رہتی ہے
منڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھر اتی ہیں
نگر میں نا امیدی کی ہوئیں سنسناتی ہیں
گلی جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتا
دکھے دل کے لئے جب کوئی دھوکا نہیں رہتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو
یہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہے
کسی ہمدرد کی صورت
گزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سے
فضا میں تیرتی ہے دیر تک یہ
گرد کی صورت
محبت درد کی صورت
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

متفرقات ـ مجھے رنگینی صحن چمن سے خوف آتا ہے

1/19/2014


مجھے رنگینی صحن چمن سے خوف آتا ہے
یہی ایام تھے جب لٹ گئی تھی زندگی اپنی

بہ زیر شاخ گل افعی گزید بلبل را
نوا گران نہ خوردہ گزند را چہ خبر
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

حسرت - بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے

1/17/2014


بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا

سہل کہتا ہوں ممتنع حسرت
نغز گوئی مرا شعار نہیں

شعردراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

رکھتے ہیں عاشقان حسن سخن
لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض

اس شوخ کورسوا نہ کیا ہے نہ کریں گے
ہم نے کبھی ایسا نہ کیا ہے نہ کریں گے

غالب و مصحفی و میرو نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھا یا ہر استاد سے فیض

طرز مومن پہ مرحبا حسرت
تیری رنگین نگاریاں نہ گئیں

اردو میں کہاں ہے اور حسرت
یہ طرز نظیری و فغانی

سر کہیں ، بال کہیں ، ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

حسرت ـ حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت


حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

بلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت میں وہ کیونکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں ' تو اکثر یاد آتے ہیں

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

حسرت ـ بڑھ گئیں تم سے تو مل کر او ر بھی بے تابیاں


بڑھ گئیں تم سے تو مل کر او ر بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

حسن بے پروا کو خو د بین و خودآرا کردیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

حسرت بہت بلند ہے مرتبہ عشق
تجھ کو تو مفت لوگوں نے بدنام کردیا

*****

دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا


اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

گوگوش ـ من آمده ام واي واي ، من آمده ام


من آمده ام واي واي ، من آمده ام 
عشق فرياد كند 

اي دلبر من الهي صد ساله شوي 
در پهلوي ما نشسته همسايه شوي 
همسايه شوي كه دست به ما سايه كني 
شايد كه نصيب من بيچاره شوي 

من آمده ام واي واي، من آمده ام 
عشق فرياد كند 

من آمده ام كه ناز بنياد كند من آمده ام 
عشق آمد و خيمه زد به صحراي دلم 
زنجير وفا فكنده در پاي دلم 

عشق اگر به فرياد دل ما نرسد 
اي واي دلم واي دلم واي دلم 
من آمده ام واي واي من آمده ام 
عشق فرياد كند 

من آمده ام كه ناز بنياد كند من آمده ام 
بيا كه برويم از اين ولايت من و تو 
تو دست منو بگير و من دامن تو 
جايي برسيم كه هر دو بيمار شويم 
تو از غم بي كسي و من از غم تو 

من آمده ام واي واي ، من آمده ام 
عشق فرياد كند 
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

حسرت ـ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے



چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یادہے


بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا
اور تیر ا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے 

با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق​
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے​

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا ​ 
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے​ 

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً​ 
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے​ 


جان کرسونا تجھے وہ قصد ِ پا بوسی مرا ​ 
اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے​ 

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ​
حال ِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے​ 

جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا​ 
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے​ 

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف​ 
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے​ 

آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر ِ فراق​ 
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے​ 

دوپہر کی دھوپ میں میرے بُلانے کے لیے​
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے​

آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز​
اپنا جانا یاد ہے،تیرا بلانا یاد ہے​

میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی​ 
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے​ 

دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے​ 
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے​ 

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ​ 
مدتیں گزریں،پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے​ 

شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا​ 
اور مِرا وہ چھیڑنا، گُدگدانا یاد ہے​ 

با وجودِ ادعائے اتّقا حسرت مجھے​ 
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانا یاد ہے​ 



اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

حسرت ـ برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے


برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے 

یادبھی دل کو نہیں صبر و سکوں کی صورت 
جب سے اس ساعد سمیں کو کھلا دیکھا ہے 
**** 
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کردیا 

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں 
ہم یہ سمجھے تھے اب دل کو شکیبا کر دیا 
****
اک مرقع ہے حسن شوخ ترا
کشمکش ہائے نوجوانی کا 

کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت 
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا 
***** 
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمت انگریز نہ کرتے 

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

حسرت ـ لایا ہے دل پہ کتنی خرابی

لایا ہے دل پہ کتنی خرابی
اے یار تیرا حسن شرابی

پیراہن اس کا سادہ و رنگین
با عکس مئے سے شیشہ گلابی

پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں
کیفیت اس کی وہ نیم خوابی

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

اقبال ـ اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد

1/15/2014


اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

یہ مشت خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعت افلاک
  !کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ، یہی ہے باد مراد؟

قصور وار ، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تیرا جہان بے بنیاد

خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں

اقبال ـ بال جبریل : کیا عشق ایک زندگی مستعار کا


کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا

وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا

میری بساط کیا ہے ، تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا

کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دل بے قرار کا

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب ، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو!

اسے ای میل کریں !BlogThis ‏‫X پر اشتراک کریں ‏Facebook پر اشتراک کریں
سبسکرائب کریں در: اشاعتیں ( Atom )

شاعر

  • ہوم

شاعر

  • ازہر
  • اشرف
  • افتخار
  • اقبال
  • اصغر
  • انیس
  • امیر
  • امرتا
  • اوریا
  • بلھے
  • پربھا
  • جالب
  • جامی
  • حالی
  • حسرت
  • حافظ
  • حفیظ
  • جوہر
  • خسرو
  • خیام
  • دانش
  • رومی
  • ساحر
  • ساغر
  • سیف
  • شاہدہ
  • شکیل
  • شکیل
  • شورش
  • عارف
  • عالمتاب
  • عاجز
  • عبدالرب نشتر
  • عدم
  • ہوم
  • عزیز
  • عطار
  • غالب
  • طارق
  • ظفر
  • ظہیر
  • فراز
  • فخر
  • فیض
  • قاسمی
  • قتیل
  • ن م راشد
  • ماہر
  • محسن
  • معین نظامی
  • مشیر کاظمی
  • مصطفی
  • منیر
  • مومن
  • منہاج برنا
  • مہندر سنگھ بیدی
  • میر تقی میر
  • کیفی
  • گوگوش
  • نامعلوم
  • نصیر
  • نظام
  • نظیری
  • نوشی
  • وسیم
  • یحیی

آرکائیو

  • ◄  2021 ( 3 )
    • ◄  دسمبر 2021 ( 3 )
      • ◄  دسمبر 25 ( 3 )
  • ◄  2019 ( 1 )
    • ◄  ستمبر 2019 ( 1 )
      • ◄  ستمبر 22 ( 1 )
  • ◄  2017 ( 1 )
    • ◄  دسمبر 2017 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 27 ( 1 )
  • ◄  2016 ( 8 )
    • ◄  اکتوبر 2016 ( 1 )
      • ◄  اکتوبر 08 ( 1 )
    • ◄  جون 2016 ( 1 )
      • ◄  جون 09 ( 1 )
    • ◄  مئی 2016 ( 6 )
      • ◄  مئی 11 ( 6 )
  • ◄  2015 ( 17 )
    • ◄  نومبر 2015 ( 1 )
      • ◄  نومبر 29 ( 1 )
    • ◄  ستمبر 2015 ( 1 )
      • ◄  ستمبر 05 ( 1 )
    • ◄  اگست 2015 ( 1 )
      • ◄  اگست 01 ( 1 )
    • ◄  جولائی 2015 ( 8 )
      • ◄  جولائی 05 ( 6 )
      • ◄  جولائی 01 ( 2 )
    • ◄  جون 2015 ( 5 )
      • ◄  جون 23 ( 5 )
    • ◄  مئی 2015 ( 1 )
      • ◄  مئی 10 ( 1 )
  • ▼  2014 ( 139 )
    • ◄  دسمبر 2014 ( 44 )
      • ◄  دسمبر 19 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 17 ( 26 )
      • ◄  دسمبر 16 ( 13 )
      • ◄  دسمبر 11 ( 3 )
      • ◄  دسمبر 07 ( 1 )
    • ◄  ستمبر 2014 ( 3 )
      • ◄  ستمبر 03 ( 3 )
    • ◄  مئی 2014 ( 8 )
      • ◄  مئی 27 ( 1 )
      • ◄  مئی 24 ( 2 )
      • ◄  مئی 13 ( 3 )
      • ◄  مئی 01 ( 2 )
    • ◄  اپریل 2014 ( 3 )
      • ◄  اپریل 26 ( 1 )
      • ◄  اپریل 02 ( 2 )
    • ◄  مارچ 2014 ( 6 )
      • ◄  مارچ 14 ( 1 )
      • ◄  مارچ 05 ( 5 )
    • ◄  فروری 2014 ( 37 )
      • ◄  فروری 16 ( 8 )
      • ◄  فروری 13 ( 1 )
      • ◄  فروری 06 ( 1 )
      • ◄  فروری 05 ( 7 )
      • ◄  فروری 02 ( 19 )
      • ◄  فروری 01 ( 1 )
    • ▼  جنوری 2014 ( 38 )
      • ▼  جنوری 29 ( 2 )
        • نوشی گیلانی - گریزِ شب سے ، سحر سے کلام رکھتے تھے
        • فراز ـ شکست و فتح
      • ◄  جنوری 27 ( 20 )
        • ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا
        • امجد ـ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی
        • امجد ـ اگر کبھی میری یاد آئے
        • امجد ـ کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
        • امجد ـ چشمِ بے خواب کو سامان بہت
        • امجد ـ مجھے تم سے محبت ہے
        • امجد ـ آخری چند دن دسمبر کے
        • امجد ـ دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
        • امجد ـ کیوں ؟
        • امجد ـ زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
        • امجد ـ شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو
        • امجد ـ ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے...
        • امجد ـ ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
        • امجد ـ حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
        • امجد ـ یہ دشتِ ہجر، یہ وحشت، یہ شام کے سائے
        • جالب ـ اے چاند یہاں نہ نکلا کر
        • جالب ـ میں نے اس سے یہ کہا
        • جالب ـ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
        • جالب ـ تو کہ ناوا قفِ آدابِ شہنشاہی تھی
        • امجد ـ ھم لوگ نہ تھے ایسے
      • ◄  جنوری 25 ( 1 )
        • امجد - وقت بھی کتنا ظالم ہے
      • ◄  جنوری 22 ( 1 )
        • افتخار ـ پَل بھر میں ہو رہے گا حِساب نبود و بُود
      • ◄  جنوری 21 ( 4 )
        • امجد - گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
        • امجد اسلام امجد - ہم لوگ
        • امجد - فرض کرو ہم تارے ہوتے
        • امجد اسلام امجد - محبت
      • ◄  جنوری 19 ( 1 )
        • متفرقات ـ مجھے رنگینی صحن چمن سے خوف آتا ہے
      • ◄  جنوری 17 ( 7 )
        • حسرت - بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
        • حسرت ـ حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت
        • حسرت ـ بڑھ گئیں تم سے تو مل کر او ر بھی بے تابیاں
        • گوگوش ـ من آمده ام واي واي ، من آمده ام
        • حسرت ـ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے
        • حسرت ـ برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے
        • حسرت ـ لایا ہے دل پہ کتنی خرابی
      • ◄  جنوری 15 ( 2 )
        • اقبال ـ اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
        • اقبال ـ بال جبریل : کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
  • ◄  2013 ( 209 )
    • ◄  نومبر 2013 ( 4 )
      • ◄  نومبر 28 ( 1 )
      • ◄  نومبر 06 ( 3 )
    • ◄  اکتوبر 2013 ( 5 )
      • ◄  اکتوبر 29 ( 5 )
    • ◄  ستمبر 2013 ( 1 )
      • ◄  ستمبر 05 ( 1 )
    • ◄  اگست 2013 ( 2 )
      • ◄  اگست 29 ( 1 )
      • ◄  اگست 22 ( 1 )
    • ◄  جولائی 2013 ( 1 )
      • ◄  جولائی 23 ( 1 )
    • ◄  جون 2013 ( 3 )
      • ◄  جون 06 ( 3 )
    • ◄  مئی 2013 ( 13 )
      • ◄  مئی 28 ( 13 )
    • ◄  اپریل 2013 ( 3 )
      • ◄  اپریل 20 ( 1 )
      • ◄  اپریل 14 ( 1 )
      • ◄  اپریل 05 ( 1 )
    • ◄  مارچ 2013 ( 101 )
      • ◄  مارچ 27 ( 1 )
      • ◄  مارچ 23 ( 4 )
      • ◄  مارچ 22 ( 1 )
      • ◄  مارچ 19 ( 19 )
      • ◄  مارچ 18 ( 22 )
      • ◄  مارچ 13 ( 1 )
      • ◄  مارچ 12 ( 11 )
      • ◄  مارچ 11 ( 2 )
      • ◄  مارچ 09 ( 1 )
      • ◄  مارچ 05 ( 17 )
      • ◄  مارچ 03 ( 7 )
      • ◄  مارچ 02 ( 13 )
      • ◄  مارچ 01 ( 2 )
    • ◄  فروری 2013 ( 72 )
      • ◄  فروری 28 ( 3 )
      • ◄  فروری 25 ( 7 )
      • ◄  فروری 24 ( 21 )
      • ◄  فروری 23 ( 31 )
      • ◄  فروری 13 ( 1 )
      • ◄  فروری 06 ( 3 )
      • ◄  فروری 05 ( 4 )
      • ◄  فروری 04 ( 2 )
    • ◄  جنوری 2013 ( 4 )
      • ◄  جنوری 27 ( 3 )
      • ◄  جنوری 16 ( 1 )
  • ◄  2012 ( 12 )
    • ◄  دسمبر 2012 ( 6 )
      • ◄  دسمبر 31 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 21 ( 4 )
      • ◄  دسمبر 15 ( 1 )
    • ◄  جولائی 2012 ( 6 )
      • ◄  جولائی 19 ( 6 )
  • ◄  2011 ( 43 )
    • ◄  اکتوبر 2011 ( 13 )
      • ◄  اکتوبر 25 ( 1 )
      • ◄  اکتوبر 18 ( 11 )
      • ◄  اکتوبر 07 ( 1 )
    • ◄  جون 2011 ( 5 )
      • ◄  جون 01 ( 5 )
    • ◄  مئی 2011 ( 4 )
      • ◄  مئی 13 ( 1 )
      • ◄  مئی 09 ( 1 )
      • ◄  مئی 04 ( 1 )
      • ◄  مئی 01 ( 1 )
    • ◄  مارچ 2011 ( 3 )
      • ◄  مارچ 17 ( 1 )
      • ◄  مارچ 12 ( 2 )
    • ◄  فروری 2011 ( 6 )
      • ◄  فروری 24 ( 1 )
      • ◄  فروری 21 ( 1 )
      • ◄  فروری 04 ( 3 )
      • ◄  فروری 03 ( 1 )
    • ◄  جنوری 2011 ( 12 )
      • ◄  جنوری 22 ( 2 )
      • ◄  جنوری 17 ( 3 )
      • ◄  جنوری 16 ( 1 )
      • ◄  جنوری 04 ( 6 )
  • ◄  2010 ( 99 )
    • ◄  دسمبر 2010 ( 29 )
      • ◄  دسمبر 31 ( 15 )
      • ◄  دسمبر 29 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 18 ( 6 )
      • ◄  دسمبر 16 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 15 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 14 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 07 ( 1 )
      • ◄  دسمبر 02 ( 2 )
      • ◄  دسمبر 01 ( 1 )
    • ◄  نومبر 2010 ( 7 )
      • ◄  نومبر 29 ( 1 )
      • ◄  نومبر 23 ( 2 )
      • ◄  نومبر 15 ( 2 )
      • ◄  نومبر 09 ( 1 )
      • ◄  نومبر 03 ( 1 )
    • ◄  اکتوبر 2010 ( 2 )
      • ◄  اکتوبر 30 ( 1 )
      • ◄  اکتوبر 28 ( 1 )
    • ◄  ستمبر 2010 ( 5 )
      • ◄  ستمبر 10 ( 4 )
      • ◄  ستمبر 07 ( 1 )
    • ◄  جولائی 2010 ( 3 )
      • ◄  جولائی 16 ( 1 )
      • ◄  جولائی 13 ( 1 )
      • ◄  جولائی 11 ( 1 )
    • ◄  مئی 2010 ( 6 )
      • ◄  مئی 29 ( 4 )
      • ◄  مئی 28 ( 2 )
    • ◄  فروری 2010 ( 46 )
      • ◄  فروری 20 ( 26 )
      • ◄  فروری 19 ( 20 )
    • ◄  جنوری 2010 ( 1 )
      • ◄  جنوری 09 ( 1 )