بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا
سہل کہتا ہوں ممتنع حسرت
نغز گوئی مرا شعار نہیں
شعردراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
رکھتے ہیں عاشقان حسن سخن
لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض
اس شوخ کورسوا نہ کیا ہے نہ کریں گے
ہم نے کبھی ایسا نہ کیا ہے نہ کریں گے
غالب و مصحفی و میرو نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھا یا ہر استاد سے فیض
طرز مومن پہ مرحبا حسرت
تیری رنگین نگاریاں نہ گئیں
اردو میں کہاں ہے اور حسرت
یہ طرز نظیری و فغانی
سر کہیں ، بال کہیں ، ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو