برق کو ابرکے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
یادبھی دل کو نہیں صبر و سکوں کی صورت
جب سے اس ساعد سمیں کو کھلا دیکھا ہے
****
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کردیا
بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے اب دل کو شکیبا کر دیا
****
اک مرقع ہے حسن شوخ ترا
کشمکش ہائے نوجوانی کا
کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
*****
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمت انگریز نہ کرتے