محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھا ہے !
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
ا سے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو !
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ' لہو میں جگمگاتی ہو !
ہزاروں طرح کے دلکش ' حسیں ہالے بناتی ہو !
ا سے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے !
محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ''مجھ سے محبت ہے ''
کہو ''مجھ سے محبت ہے ''
تمہیں مجھ سے محبت ہے
کچھ ایسی بے سکو نی ہے وفا کی سر زمیوں میں
کہ جو اہل محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو' کہ جیسے ہاتھ میں پاراکہ جیسے شام کاتارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں ر ہتی ہے '
گماں کے شاخ پر آشیاں بنتا ہے الفت کا !
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خد شوں میں رہتی ہے '
محبت کے مسافر زند گی جب کا ٹ چکتے ہیں
تھکن کی کر چیاں چنتے ' وفا کی اجر کیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر
دھیرے سے کہتا ہے
یہ سچ ہے نا !
ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی !
دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
ا سی کا نام چاہت ہے !
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے !!'
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے