یہ دشتِ ہجر، یہ وحشت، یہ شام کے سائے
خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دِکھلائے
اُسی کے نام سے لفظوں میں چانداُترے ہیں
وہ ایک شخص کہ دیکھوں تو آنکھ بھر آئے
جو کھو چکے ہیں اُنہیں ڈھونڈنا تو ممکن ہے
جو جا چکے ہیں اُنہیں کوئی کس طرح لائے
کلی سے میں نے گلِ تر جسے بنایا تھا
رُتیں بدلتی ہیں کیسے، مجھے ہی سمجھائے
جو بے چراغ گھروں کو چراغ دیتا ہے
اُسے کہو کہ مِرے شہر کی طرف آئے
یہ اضطرابِ مسلسل عذاب ہے امجد
مِرا نہیں تو کسی اور ہی کا ہو جائے