چشمِ بے خواب کو سامان بہت
رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے
ہر طرف چیخ سی لہراتی ہے
ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
چشم بے خواب کو سامان بہت