جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
مدتوں اپنے بدن سے تیری خوشبو آئی
میرے مکتوب کی تقدیر کے اشکوں سے دھُلا
میری آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئی
اپنے سینے پہ لِیئے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ
اب تو ان راہ گزاروں میں میری خو آئی
یوں امڈ آئی کوئی یاد میری آنکھوں میں
چاندنی جیسے نہانے کو لبِ جو آئی
ہاں، نمازوں کا اثر دیکھ لیا پچھلی رات
میں ادھر گھر سے گیا تھا کہ ادھر تو آئی
مژدہ اے دل کسی پہلو تو قرار آ ہی گیا
منزِلِ دار کٹی ساعتِ گیسو آئی
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں