اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
پلکوں پہ آ کے رک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا
شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا
آ کر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئ
الزام احتیاطِ گریباں کے سر گیا
زنجیرِ ماتمی ہے تم اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دِوانہ تو مر گیا
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں