کچھ وقت تو لگتا ہے؛ کہیں کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں میں کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی در کا ڈیرہ
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
شاید وہ کوئی وہم تھا ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
اب بیر نہ الفت نہ کوئی ربط نہ رشتہ
اپنا کوئی تیرا نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے