پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا!کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اِک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلادئیے قدموں کے سراغ
گل کروشمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کردو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا