گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائیگی
اُن ہاتھوں سے مس ہونگے یہ ترسے ہوئے ہات
--------------
اُن کا آنچل ہے کہ رُخسار ہے کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگین
--------------
جانے اُس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں
--------------
آج پھر حسنِ دلآراء کی وہی دھج ہوگی
وہی خوبیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ وہ ہلکا سا غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر
--------------
اپنے افکار کی ،اشعار کی دنیا ہے یہی
جاںِ مضموں ہے یہی، شاہدِ معنیٰ ہے یہی
--------------
یہ بھی ہیں، ایسے کئی اور بھی مضموں ہونگے
لیکن اُس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے!اُس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہیے !کہیں ایسے بھی افسوں ہونگے
--------------
اپنا موضوعِ سخن اِن کے سوا اور نہیں
طبعِ شاعر کا وطن اِن کے سوا اور نہیں